امام ؒ : جس قوم کے پاس کربلا ہو، کسی چیز سے نہیں ڈرتا

امام ؒ : جس قوم کے پاس کربلا ہو، کسی چیز سے نہیں ڈرتا

کوئی اتحاد کیطرف دعوت دے اور کہے کہ صرف میری بات مانو تو یہ اختلاف کیطرف دعوت ہے نہ کہ اتحاد کی طرف۔

کوئی اتحاد کیطرف دعوت دے اور کہے کہ صرف میری بات مانو تو یہ اختلاف کیطرف دعوت ہے نہ کہ اتحاد کی طرف۔

حجة الاسلام و المسلمین مولانا شیخ غلام عباس رئیسی کا شمار پاکستان کے جید اور بزرگ علمائے کرام میں ہوتا ہے۔ علماء کے حلقے میں آپ کی شخصیت کو منفرد مقام حاصل ہے۔ بنیادی طور پر آپ کا تعلق پاکستان کے شمالی علاقہ بلتستان سے ہے۔ والد بزرگوار، آپ کی پیدائش سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے، والدہ محترمہ کے ہمراہ نجف اشرف چلے گئے، تاہم وہاں پہنچے تو والدہ محترمہ کا سایہ بھی زیادہ دیر ساتھ نہ رہا۔ بڑے بھائی کی فیملی کے ساتھ نجف میں اسکول کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

1975ء میں وطن واپس آکر کراچی، مدرسہ جعفریہ میں داخلہ لیا، اسکے ساتھ ساتھ کالج کی بھی تعلیم حاصل کی۔ 1979ء میں انقلاب اسلامی ایران کے بعد اسی سال کے آخر میں قم المقدس چلے گئے اور یوں ایران میں درس و تدریس میں مصروف رہے۔ 1989ء سے 2003ء تک مدرسہ امام خمینی(رہ) جمہوری اسلامی ایران میں پڑھاتے رہے۔ آپ جامعہ عروة الوثقٰی لاہور سے بھی واپستہ رہے۔ آج کل آپ حوزہ علمیہ حضرت امام خمینیؒ، کراچی کے پرنسل کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔

" اسلام ٹائمز" نے مولانا کے ساتھ عالم تشیع اور اسکے مسائل و حل، علماء کی ذمہ داری و مدارس کی صورتحال سمیت مختلف موضوعات پر حوزہ علمیہ امام خمینیؒ، کراچی میں ایک مختصر نشست کی، اس حوالے سے انکے ساتھ کیا گیا اہم انٹرویو قارئین کےلئے پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: عالمی منظر نامے میں تشیع کو کس مقام پر کھڑا دیکھتے ہیں؟

مولانا رئیسی:  بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تشیع اس وقت عالمی سطح پر ماضی سے لیکر ابتک سب سے بہتر مقام پر موجود ہے۔ تشیع وارث انبیاؑ و آئمہؑ ہے، جس نے انبیاؑ و آئمہؑ کے علم حق کو بلند رکھا ہوا ہے، اس وقت عالم کفر و استکبار و ظلم کے مقابلے میں کوئی طاقت کھڑی ہے تو وہ تشیع ہے۔ اس وقت تشیع کی قیادت اسلامی ایران کر رہا ہے، جس کا دنیا بھر کے شیعہ ساتھ دے رہے ہیں۔

اب ایرانی قیادت میں تشیع عالم اسلام کے خلاف ہونے والی تمام تر سازشوں کو بے نقاب کرتا ہے، جیسا کہ آئمہ اطہار علیھم السلام امت کو بیدار کرتے تھے، دشمنوں کی سازشوں سے آگاہ کرتے تھے، امت مسلمہ کو بیدار کرنے کی یہی ذمہ داری آج بھی تشیع انجام دے رہی ہے، باطل کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے، اس کے باوجود آج بھی ماضی کی طرح تشیع سب سے زیادہ مظلوم ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں تشیع کو کس مقام پر دیکھتے ہیں، وہ کن مسائل سے دوچار ہے؟

مولانا رئیسی: پاکستان میں شیعہ جغرافیائی لحاظ سے پراکندہ ہیں۔ پاکستان میں تشیع کو حقوق دینے کی راہ میں سعودی عرب کا اثر و نفوذ رکاوٹ ہے، یہ ایک مشکل۔ دوسری مشکل یہ ہےکہ ہمارے درمیان اکثریت اسلام و تشیع کے اعلٰی اہداف سے آگاہ نہیں ہے۔ اسلام کی انقلابی و سیاسی فکر اور اعلٰی اہداف سمجھنے والوں کی تعداد کم ہے۔ پھر یہ کہ خود جو انقلابی افراد میدان میں ہیں، یہی آپس میں متحد نہیں ہیں!! اگر آپ کا ہدف ایک ہے تو کیوں اس ہدف واحد پر متحد نہیں ہیں؟ جس مسئلے میں دو گروہوں کے درمیان اختلاف ہے، اس مسئلے میں ساتھ نہ دیں، لیکن جس مسئلے میں دونوں مشترک ہیں، اس مسئلے میں ساتھ نہ دینے کی وجہ کیا ہے؟ یہ ایک عجیب بات ہے!!

میں نے عام طور پر دیکھا ہےکہ کہتے ہیں کہ ہم اتحاد چاہتے ہیں، لیکن دوسرے الفاظ میں یوں کہتے ہیں کہ اتحاد چاہتے ہیں، لیکن آپ میرا ساتھ دو، میری بات مانو!! یہ تو اتحاد نہیں ہوا، اتحاد اس وقت ہوگا کہ جس کو دونوں مانتے ہوں، دونوں مل کر کام کریں، اتحاد ایک دوسرے کے تابع بننا نہیں ہے۔ کوئی اتحاد کی طرف دعوت دے اور کہے کہ میری بات مانو، یہ تو بالکل اختلاف کی طرف دعوت ہے نہ کہ اتحاد کی طرف۔ انقلابی افراد اور قیادت میں سب سے پہلی شرط یہ ہےکہ وہ دریا دل ہوں، شرح صدر کے مالک ہوں، دوست و دشمن کو سب کو اپنے اندر سمو سکیں، ایسی دریا دلی کی ضرورت ہے۔ بصیرت کی ضرورت ہےکہ وقت کے تقاضے کیا ہیں؟ اور دوست و دشمن کی شناخت کرنے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے ساتھ مناسب برتاو کرے۔

دشمن کے مطابق، تشیع کے مقابلہ میں کامیابی کا واحد راستہ یہ ہےکہ اس کے ساتھ ثقافتی جنگ ہو، ان کے دینی عقیدے کو خراب کر ڈالیں، تو ہم جنگ جیت سکیں گے؛ لہٰذا جب تک شہادت پر یقین رکھتے ہوں، اس قوم سے کوئی نہیں جیت سکتا۔ امام خمینیؒ نے امریکی صدر جمی کارٹر سے کہا تھا کہ تم ایسی قوم کو کہ جس کے پاس رمضان ہو، اسے معاشی دھمکیوں کے ذریعے، پابندیوں کے ذریعے اور جس قوم کے پاس کربلا ہو، اس کو حملے کے ذریعے ڈرانا چاہتے ہو؟! یہ ناممکن چیز ہے۔

پاکستان میں سیاسی حوالے سے آپسی پراکندگی ہے، اگرچہ ثقافتی لحاظ سے پہلے کی نسبت بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ مثلاً اب حجاب کے حوالے سے صورتحال بہت بہتر ہوچکی ہے، مذہبی فعالیت کے حوالے سے صورتحال، تقلید یا دیگر حوالوں سے صورتحال بہت بہتر ہوچکی ہے؛ اسی لئے آج جو مرجعیت کے خلاف اور علماء کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں، اسی پیشرفت کو دیکھ کر ہو رہی ہیں، لیکن افسوس کہ سیاسی لحاظ سے ہم پیچھے گئے ہیں، یہ سب کو احساس ہے، اس کا بھی ازالہ ہوجائےگا، انشاءاللہ تعالی۔

اسلام ٹائمز: اس حوالے سے پاکستان میں علماء کرام سے کس کردار کے خواہاں ہیں؟

مولانا رئیسی: میرا خیال ہےکہ کم از کم پاکستان میں جید و معروف علماء کرام مختلف سوچ کے باوجود کچھ اجتماع کریں، تاکہ کم سے کم آپسی فاصلے کم کریں اور چنانچہ کچھ غلط فہمیاں بھی ہوں تو اس طرح دور کیا جاسکیں۔ آیت اللہ سید شرف الدین کہتے ہیں کہ "اگر لوگ ایک دوسرے سے آشنا ہوجائیں گے، تو نزدیک بھی آئیں گے"۔ لہٰذا دور ہونے کی وجہ سے مختلف وجوہات کی بناء پر فاصلے مزید بڑھتے ہیں، جبکہ مل کر بیٹھنے سے پتہ چلےگا کہ اہداف میں فرق نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ طریقہ کار میں فرق ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ دو شیعہ کی نیت اور ہدف مختلف ہوں؛ قرآن اور سنت محمدؐ و آل محمدؐ ہمارا ہدف ہے، تو اس میں اختلاف ممکن نہیں، طریقہ کار میں ممکن ہے اختلاف ہو، لیکن مل بیٹھنے سے طریقہ کار میں اختلاف بھی کم ہوجائیں گے۔

لہٰذا نہ صرف علماء بلکہ قوم کے سارے عمائدین کو مل کر بیٹھنا چاہیئے، نتیجے تک نہ بھی پہنچیں، لیکن بیٹھ جائیں گے تو آہستہ آہستہ اختلاف کم ہوجائیں گے، اپنائیت کا احساس بڑھ جائےگا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے فرمایا کہ پاکستان میں تشیع کی اکثریت اسلام و تشیع کے اعلٰی اہداف سے آگاہ نہیں ہے، اسکا حل کیا پیش کرتے ہیں؟

مولانا رئیسی: ایک فوری حل یہ ہےکہ تمام شیعہ جوانوں کےلئے تمام علاقوں میں، مساجد و مدارس حتی امامبارگاہوں میں کم از کم اتوار کے روز دینی کلاسز ہوں، اسلامی معارف کا کلی ضابطہ ان کے پاس ہو، اسلامی معارف کے کلی اصول ان ہاتھ میں آجائیں، اس طرح شیعہ، اہلبیت محمدیؑ کے اسلام کا نظریہ سب کے پاس آئےگا اجمالاً، تو کوئی انہیں دھوکہ نہیں دے سکےگا، گمراہ نہیں کرسکےگا۔

اسلام ٹائمز: ملی مسائل کے حل کےلئے ملی تنظیموں، اداروں، خواص کی روش کیا ہونی چاہیئے؟

مولانا رئیسی: پاکستان بھر میں عاشورا کے روز بہت بڑے بڑے جلوس برآمد ہوتے ہیں، جسے روکنا کسی طاقت کے بس کی بات نہیں، کیونکہ اس میں ہر گروہ اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ تشیع کے مسائل و دیگر مسائل میں بھی اسی طرح سب اپنا اپنا حصہ ڈالیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں کہ پوری شیعہ قوم میری جاگیر ہے۔ یہ ایک بہت بڑی مشکل ہےکہ ہماری پارٹیاں سوچتی ہیں، اسی لئے جب دوسری پارٹی میدان میں نکلتی ہے تو برداشت نہیں کرتیں۔

لہٰذا جس طرح عاشورا کے جلوس میں ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے سب اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور جلوس عزا کامیاب ہوتا ہے، اسی طرح ایک دوسرے کی نفی نہ کریں بلکہ ہر کوئی اپنا اپنا حصہ، مثبت انداز میں سامنے رکھیں، قوم خود سمجھتی ہےکہ کون زیادہ خدمت کرتا ہے۔

میری قوم سے بھی میری خواہش ہےکہ وہ جلدی سوء ظن میں مبتلا نہ ہوجائے؛ مثلا اگر کسی نئی تنظیم کی تشکیل ہو تو یہ نہ سوچیں کہ یہ قبضہ کرنے کےلئے آئے ہیں، بلکہ قوم اس کے عمل کو دیکھے، کیا عمل کرتا ہے، اگر مخلص ہو تو ساتھ دیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں ملت تشیع کے مسائل کے حل کےلئے رہبریت کی نگاہ کیا کہتی ہے؟

مولانا غلام عباس رئیسی: ایک باپ بھی اپنے بیٹے کی خدمت نہیں کرسکتا، جب تک بیٹا خود آمادہ نہ ہو۔ حدیث میں ہےکہ کسی واعظ کا اثر کسی پر نہیں ہوتا، جب اس کے اندر ہی کوئی واعظ نہ ہو، لہٰذا ہمارے اندر آمادگی کی ضرورت ہے۔

ایک دن رہبر معظم انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے عالمی سطح پر کسی ایرانی پہلوان کے جیتنے پر مبارک باد کا پیغام دیا تو قم میں ہمارے کسی پاکستانی طالب علم نے کہا: "دیکھو ہمارے پاکستان کے اتنے مسائل ہیں، اس پر کوئی کچھ نہیں کہتے! ادھر ایک کھلاڑی کےلئے رہبر بھی پیغام دیتے ہیں"! تو میں نے کہا کہ مالک اشتر کے نام خط میں مولا امیر المومنین (ع) نے مالک سے فرمایا:

" اکثریت کی خوشی کو مدنظر رکھو، یعنی عموم کی، خواص راضی ہوں یا نہ ہوں"۔

ہم پاکستانیوں نے ثابت کیا کہ رہبر کی بات نہیں ماننی۔ ہمارے اختلافات ختم کرنے کےلئے رہبر نے جو حل پیش کیا تھا، ہمارے یہاں کے لوگوں نے اسے کھل کر ٹھکرا دیا۔ خود مولا امیر (ع) کے مطابق، "وہ امام جس کی اطاعت نہیں کی جاتی ہو، اس کی رائے کا کیا فائدہ ہے"، یہ ایک افسوسناک مشکل ہے۔

ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی، تاریخ تشیع کا بے مثال واقعہ ہے، یعنی قوم میں صلاحیت ہو تو یہ خود اپنے اندر قیادت پیدا کر لےگی، صحیح قیادت کو پہچان لےگی۔

بہرحال اس وقت رہبر نے شوریٰ کا نظریہ پیش کرکے کہا تھا کہ آپ مومنین پاکستان اپنے مسائل کو حل کریں، ان شاءاللہ یہ مجمع شیعیان پاکستان کے مفاد میں ہوگا، اس میں یہی کوشش تھی کہ سب شیعوں کی نمائندگی ہو، سب مل جل کر اپنے مسائل حل کریں، کیونکہ مسائل باہر سے حل نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ اتحاد و یکجہتی ہو، قوم کے مسائل کا ادراک ہو، بصیرت اور درد ہو، سب رہبریت کی طرف رجوع کرینگے۔ اگر رہبر کی بات مانیں گے تو رہبر بات کرینگے، لیکن افسوسناک بات ماضی میں ثابت ہوئی ہےکہ رہبر کی بات، اگر میرے مفاد کے مطابق نہیں ہوگی تو اسے نظرانداز کرتے ہیں۔

 

ماخذ: اسلام ٹائمز

ای میل کریں