آل سعود صہیونیوں اور امریکہ کے آلہ کار

آل سعود صہیونیوں اور امریکہ کے آلہ کار

امام خمینی(رہ): جو بھی شیعہ سنی اختلافات کی بات کرےگا نہ وہ شیعہ ہے اور نہ ہی سنی ہے۔ ہم سبھی کو اسلام اور امت مسلمہ کی ہی بات کرنی چاہئے۔

امام خمینی(رہ): جو بھی شیعہ سنی اختلافات کی بات کرےگا نہ وہ شیعہ ہے اور نہ ہی سنی ہے۔ ہم سبھی کو اسلام اور امت مسلمہ کی ہی بات کرنی چاہئے۔

آئی کے ایم ٹی کرگل کے بانی و سابق چیئرمین کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ اسرائیل، امریکہ اور اس کے علاوہ عرب کے کچھ ممالک خصوصاً آل سعود اور قطر مل کر اسلامی دنیا کے اتحاد اور امت کی وحدت و یکجہتی کو ختم کرنے کےلئے صہیونی استعماری آلہ کاری کے طور پر کام کر رہے ہیں، لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ آہستہ آہستہ ان عرب حکمرانوں کی حقیقت دن بہ دن عوام پر واضح ہو رہی ہے اور ان کی گرفت سے ان کے چنگل سے آہستہ آہستہ مسلمان آزاد ہو رہے ہیں، کل تک جو یہ شوشہ تھا کہ آل سعود سارے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں، آج وہ حقیقت دنیا پر واضح ہوچکی ہے اور یہ پتہ چل چکا ہےکہ یہ کوئی خادم حرمین نہیں ہیں، بلکہ یہ صہیونیوں اور امریکہ کے آلہ کار ہیں اور مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں، چاہے وہ یمن میں ہو، بحرین میں ہو، شام میں ہو، عراق و افغانستان میں ہو، دنیا یہ مشاہدہ کرچکی ہےکہ کس طرح سے مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کو ختم کرنے کےلئے سعودی عرب نے کوششیں کیں، کس طریقے سے حماس کو ختم کرنے کےلئے انھوں نے صہیونیوں کے ساتھ مل کر سازشیں کیں اور یہ سب اب ایکسپوز ہو رہا ہے، اب آہستہ آہستہ لوگوں کو پتہ چل رہا ہےکہ آل سعود کیا ہیں، آل خلیفہ کیا ہیں اور کس طریقے سے یہ مسلمانوں کے اندر اتحاد و یکجہتی کو ختم کرنے کےلئے کوششیں کر رہے ہیں۔

حاجی اصغر علی کربلائی کا تعلق مقبوضہ جموں و کشمیر کے کرگل خطے سے ہے، وہ مقامی سیاست میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں، امام خمینیؒ میموریل ٹرسٹ کشمیر کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں اور ادارے کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔

اسلام ٹائمز کے نمائندے نے اصغر علی کربلائی سے ایک نشست کے دوران مسئلہ فلسطین اور یوم القدس کے حوالے سے خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے:

 

اسلام ٹائمز: عالم اسلام میں مسئلہ فلسطین کی اہمیت کیا ہے؟ اور بیت المقدس کی بازیابی کیسے ممکن ہے؟

حاجی کربلائی: یہ سرزمین انبیاء، قبلہ اول مسلمین ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں سے پیغمبر اکرم(ص) کو معراج حاصل ہوا، اس لئے جتنا حرم امن الٰہی خانہ کعبہ کی اہمیت ہے، مدینۃ الرسول(ص) کی اہمیت ہے، اس طرح سے بیت المقدس اور سرزمین فلسطین کی اہمیت ہے۔

اور بیت المقدس کی بازیابی کےلئے مسلمانوں کو اپنے تمام اختلافات کو بھلا کے متحد ہو کر سرزمین فلسطین کی آزادی کےلئے مالی، سیاسی، اخلاقی اور جانی جس طرح کی بھی مدد ہوسکے، کرنے کی ضرورت ہے اور اس مسئلہ کو ہر اعتبار سے زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کا جو وہاں غاصبانہ قبضہ ہے، اس کے بارے میں لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہےکہ یہ یہودیوں کی سرزمین نہیں ہے بلکہ یہ مسلمانوں کی سرزمین ہے، یہ صرف عرب اور عجم کا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر ہم فلسطین میں رہنے والوں کی مالی، سیاسی اور اخلاقی مدد کریں، حماس یا الفتح یا کہ جہاد اسلامی، تو یہ تمام گروپ خود ہی اپنی سرزمین کو آزاد کرسکتے ہیں۔ ہر جگہ ہمیں فلسطین اور بیت المقدس کی بات چھیڑتے رہنی چاہئے تاکہ لوگوں کو حقیقت مسئلہ فلسطین سے آگاہی ملے اور ان کو پتہ چلے کہ مسئلہ فلسطین حقیقت میں ہے کیا۔

اسلام ٹائمز: دنیا کو صہیونی طاقت نے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے، چاہے مسلم یا غیر مسلم ممالک کی بات کریں۔ کیسے ممکن ہےکہ فلسطین ان کے چنگل سے آزاد ہو جائےگا؟

حاجی کربلائی: یقیناً اسرائیل، امریکہ اور اس کے علاوہ عرب کے کچھ ممالک خصوصاً آل سعود اور قطر مل کے اسلامی دنیا کے اتحاد اور امت کی وحدت و یکجہتی کو ختم کرنے کےلئے صہیونی استعماری آلہ کاری کے طور پر کام کر رہے ہیں، لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ آہستہ آہستہ ان عرب حکمرانوں کی حقیقت دن بہ دن عوام پر واضح ہو رہی ہے اور ان کے گرفت سے ان کے چنگل سے آہستہ آہستہ مسلمان آزاد ہو رہے ہیں، کل تک جو یہ شوشہ تھا کہ آل سعود سارے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں، آج وہ حقیقت دنیا پر واضح ہوچکی ہے اور یہ پتہ چل چکا ہےکہ یہ کوئی خادم حرمین نہیں ہیں، بلکہ یہ صہیونی اور امریکہ کے آلہ کار ہیں اور مسلمانوں کے پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں، چاہے وہ یمن میں ہو، بحرین میں ہو، شام میں ہو، عراق و افغانستان میں ہو، دنیا یہ مشاہدہ کرچکی ہےکہ کس طرح سے مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کو ختم کرنے کےلئے سعودی عرب نے کوششیں کیں، کس طریقے سے حماس کو ختم کرنے کےلئے انھوں نے صہیونیوں کے ساتھ مل کر سازشیں کیں اور یہ سب اب ایکسپوز ہو رہا ہے، اب آہستہ آہستہ لوگوں کو پتہ چل رہا ہےکہ آل سعود کیا ہیں، آل خلیفہ کیا ہیں اور کس طریقے سے یہ مسلمانوں کے اندر اتحاد و یکجہتی کو ختم کرنے کےلئے کوششیں کر رہے ہیں، اب دن بہ دن امریکہ دنیا کے سامنے ایکسپوز ہو رہا ہے، اقوام متحدہ ایکسپوز ہو رہا ہے۔

مجھے امید ہےکہ عنقریب ان شاء اللہ یہ ساری کٹھ پتلی حکومتیں ختم ہوں گے اور قبلہ اول اور سرزمین فلسطین و بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں آئےگا اور مسلمان وہاں پر مل کر نماز ادا کرسکیں گے۔

اسلام ٹائمز: رہبر معظم نے گذشتہ سال فرمایا تھا کہ اسرائیل آئندہ پچیس سالوں کے اندر دنیائے ہستی سے مٹ جائےگا، اس فرمان کی تشریح جاننا چاہیں گے؟

حاجی کربلائی: رہبر معظم ولی امر مسلمین نے جو بات کہی کہ سرزمین فلسطین بہت جلد آزاد ہوگا اور اسرائیل کی غاصب اور ناجائز حکومت آئندہ پچیس سال میں ختم ہوجائےگی اور یہ ابھی ہو رہا ہے اور دن بہ دن اسرائیل اپنی نابودی کی طرف جا رہا ہے اور اس میں دن بہ دن تیزی آ رہی ہے، حماس اپنی طاقت بڑھا چکی ہے، جہاد اسلامی اپنی طاقت بڑھا چکی ہے، آپ نے دیکھا کہ کس طریقے سے 2014ء کی جنگ میں حماس نے اور جہاد اسلامی نے اپنی طاقت اسرائیل سے منوائی، اب اسرائیل کے اندر یہ خلفشار پیدا ہو رہا ہے اور یہ بات گھونج رہی ہےکہ ہمیں حماس کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے اور ہم نے یہ جو غاصبانہ پالیسی اپنا رکھی ہے، اسے ترک کرنا چاہئے، اب وہ یہودی جو انسانیت پر یقین رکھتے ہیں، وہ صہیونی نظریہ کو بالکل رد کر رہے ہیں، اب سرزمین اسرائیل سے ہی یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں، تو مجھے لگتا ہے واقعاً رہبر معظم امام خامنہ ای کی جو پیشن گوئی ہے، وہ حقیقت ہونے والی ہے اور بہت جلد سرزمین فلسطین آزاد ہوگا اور اسرائیل صفحۂ ہستی سے مٹ جائےگا۔

اسلام ٹائمز: جمعۃ الوداع کو بطور یوم القدس منانے کا جو فلسفہ امام خمینی(رہ) کا تھا، اس فلسفہ کی وضاحت چاہیں گے؟

حاجی کربلائی: ہم دیکھتے ہیں کہ امام خمینی(رہ) نے 1987ء میں جب مسلمانوں کو کہا کہ یہ سرزمین فلسطین عرب کا ایشو نہیں ہے، عربی مسئلہ نہیں ہے، یہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے تو اس وقت تک عام مسلمانوں میں یہ مسئلہ فلسطین اتنا زیادہ اُجاگر نہیں تھا جتنا آج ہے، یہ امام خمینی(رہ) کی قیادت اور ان کی روشن ضمیری ہے، جنھوں نے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیکر دنیا کے تمام مسلمانوں کو بتا دیا کہ یہ قبلہ اول کا مسئلہ ہے، سرزمین انبیاء کا مسئلہ ہے اور اسی کی وجہ سے دنیا کے مسلمانوں پر واضح ہوگیا کہ یہ عرب اور اسرائیل کی جنگ نہیں ہے، یہ مسلمانوں اور غاصب صہیونیوں کی جنگ ہے، یہ مسلمانوں اور صہیونیوں کی جنگ ہے، یہ مسلمانوں کے دلوں سے جڑا ہوا مسئلہ ہے اور یہ قبلہ اول مسلمین کا مسئلہ ہے، یہ بات امام خمینی(رہ) کے واضح اور روشن خیالات کی بدولت ہی دنیا پر واضح ہوگیا، ہم نے دیکھا کہ گذشتہ تیس سالوں میں اسرائیل کے مظالم اور فلسطینیوں کے حق کی آواز پوری دنیا پر روشن ہوگئی، اب یہ یوم القدس نہ صرف عرب ممالک میں منایا جاتا ہے بلکہ دنیا کے ہر گوشہ میں ہر ملک میں منایا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ محسوس کر رہے ہیں کہ یوم القدس ایک پیش خیمہ ہوگا، ایک بنیاد ہوگی اور ایک پہل ہوگی کہ بیت المقدس اور فلسطین کا مسئلہ حل ہوجائے اور فلسطینیوں کو آزادی حاصل ہوگی اس دن کے نتیجے میں؟

حاجی کربلائی: یقیناً یہ اسی دن کا نتیجہ ہےکہ حماس اور جہاد اسلامی تمام عرب ممالک کی غداریوں کے باوجود زندہ ہیں اور مضبوطی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں، یہ اسی دن کا نتیجہ ہےکہ حزب اللہ جیسی الٰہی اور حق پرست تنظیم اسرائیل کے ساتھ دو دو ہاتھ کر رہی ہے اور جس طریقے سے مسئلہ فلسطین اجاگر ہوا ہے، یہ امام خمینی(رہ) کے اس اعلان کا نتیجہ ہے اور نہ صرف مجھے بلکہ عالم اسلام کو امید ہےکہ اگر بیت المقدس اور فلسطین آزاد ہوگا تو اسی یوم القدس کی بدولت آزاد ہوگا۔

اسلام ٹائمز: انتشار اور آپسی تضاد جو پوری مسلم دنیا میں پایا جا رہا ہے، کیا اس انتشار اور آپسی تضاد میں قبلہ اول کی بازیابی ممکن ہے؟

حاجی کربلائی: جو انتشار اور آپسی تضاد مسلمانوں کے درمیان امریکہ، اسرائیل اور کچھ عرب کٹھ پتلی حکمران پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ تقریباً ایکسپوز ہوچکا ہے اور یہ بات آج سے پانچ برس پہلے اتنی واضح نہیں تھی جتنی آج ہے، پہلے مانا جاتا تھا کہ آل سعود مسلمانوں کی نمائندگی اور قیادت کر رہے ہے، لیکن آج ان کی وہ حیثیت نہیں ہے، آج ان کی وہ پذیرائی مسلمانوں کے درمیان نہیں ہے، مسلمان آج انھیں شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، عرب ممالک کے جتنے بھی سربراہان ہیں، ان کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، ان کو امریکہ اور صہیونیوں کی کٹھ پتلی کے طور پر دیکھتے ہیں، میں تسلیم کرتا ہوں کہ کچھ کچھ جگہوں پر ہمارے نادان دوست اتنے آگاہ نہیں ہیں، وہ ان کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں، لیکن عامۃ المسلمین بالخصوص نسل جوان ان چیزوں سے کافی حد تک اب آگاہ ہوچکی ہے، اب یہ ان کی منافرت، اختلاف اور پھوٹ ڈالنے والی پالیسی کو پہچان گئے ہیں اور بہت جلدی یہ تمام لوگ دنیا کے سامنے ننگے ہوجائیں گے۔

داعش جیسی دہشت گرد تنظیم جس کو امریکہ اور اسرائیل نے مل کر پروان چڑھایا اور جس تیزی کے ساتھ وہ ابھرا اور عراق، شام، یمن و بحرین میں انسان سوز کارروائیاں کیں، لیکن عامۃ المسلمین نے اس منصوبے کو سمجھا اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ شام سے، عراق سے، یمن سے انھیں کھدیڑا جا رہا ہے اور اب یہ سکڑ رہے ہیں، داعش اب اتنی مضبوط طاقت نہیں رہی جتنی 2014ء میں تھی، اب وہ حیثیت نہیں رہی ان کی، اس لئے مستقبل میں کامیابی و کامرانی مسلمانوں کی ہوگی۔

آج پوری دنیا کو پتہ ہےکہ ان تمام داعش و القاعدہ و طالبان اور جتنے بھی تکفیری نظریات ہیں، ان سب کے پیچھے جو مالی طاقت ہے جو سیاسی طاقت ہے، وہ آل سعود اور آل خلیفہ کی ہے۔

اسلام ٹائمز: کرگل کے عوام جن کو آپ ہمیشہ آگاہی و بیداری کی طرف لے گئے اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کرگل کا معاشرہ ایک بیدار معاشرہ ہے تو عالم اسلام میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس حوالے سے کرگل کی عوام کتنی آگاہ ہے اور بیداری عوام پر کتنا کام ہو رہا ہے؟

حاجی کربلائی: عالم اسلام کا کوئی بھی ایشو ہو تو اس پر کرگل کی عوام سب سے پہلے اپنا رد عمل ظاہر کرتی ہے۔ ہر سال جمعۃ الوداع یوم القدس کو، ہزاروں کی تعداد میں مرد و زن گھروں سے نکل کر حسینی پارک کرگل میں جمع ہوجاتے ہیں اور یہ سلسلہ پچھلے کئی دہایوں سے چلا آ رہا ہے۔ آیت اللہ شہید نمر کا مسئلہ ہوا، تو سب سے پہلے کرگل نے ہی رد عمل ظاہر کیا، یعنی عالم اسلام میں کوئی بھی مسئلہ ہو، چاہے فلسطین کا مسئلہ ہو، شام، عراق، بحرین کا مسئلہ ہو، سب سے پہلے کرگل کی عوام ہی رد عمل دیتی ہے، کیونکہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ عالم اسلام کے مسائل سے لوگوں کو آگاہی فراہم کریں اور اسی کا نتیجہ ہےکہ یہاں پر جس طریقے سے یوم القدس منایا جاتا ہے، برسی امام خمینی(رہ) منائی جاتی ہے اور دوسرے ایام شہداء منائے جاتے ہیں، کہیں اور شاید اس طریقے سے نہ منائی جاتی ہو۔

اسلام ٹائمز: جب سے اسلامی انقلاب ایران میں کامیاب ہوا، تب سے ہی کرگل میں ایک بیداری کی تحریک چلی ہے، لیکن کیا وجہ ہےکہ کرگل میں آپسی انتشار دیکھنے کو مل رہا ہے؟

حاجی کربلائی: ہمارے یہاں پر دو گروپ ہیں، ایک اسلامیہ اسکول اور ایک امام خمینی(رہ) میموریل ٹرسٹ ہے اور جہاں تک انجمن صاحب زمان کی بات ہے، وہ کسی سے کوئی اختلافات نہیں رکھتے بلکہ وہ انقلاب کے ہمراہ ہیں، اسلامیہ اسکول کی پوزیشن جو پہلے تھی، اب وہ اس پر نہیں ہے، وہ بھی تمام دن مناتے ہیں، چاہے یوم القدس ہو، برسی امام خمینی(رہ) ہو یا کوئی اور خاص دن، اب آہستہ آہستہ یہ بھی سمجھ چکے ہیں، اب عالم اسلام میں جو بھی ایشوز ہوتے ہیں، ان پر یہ بھی رد عمل ظاہر کرتے ہیں، کرگل قوم آج کسی بھی انجمن کے ساتھ منسلک ہو، سبھی مل کر اور متحد ہو کر اپنی آواز دنیا تک پہچاتے ہیں، عالم اسلام کے ایشوز پر کرگل میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: مسلمانوں کے مشترکہ مسائل کے حل کےلئے اتحاد اسلامی کی اہمیت و ضرورت کے بارے میں آپ کے تاثرات کیا ہیں؟

حاجی کربلائی: آج اتحاد اسلامی کےلئے نہ شیعہ ہونا ایشو ہونا چاہئے اور نہ سنی ہونا ایشو ہونا چاہئے، ہمیں صرف ایک امت واحدہ اور امت مسلمہ کے ایشوز اٹھانے ہیں۔ ہم سبھی کا مقصد ایک ہونا چاہئے کہ دین اسلام کا احیاء ہو اور عالم کائنات میں اسلام اور مسلمان اتنے مضبوط ہوں کہ ان کی حکمرانی سارے عالم پر قائم ہو اور اس کےلئے ہمیں اتحاد و اتفاق کی فضا کو قائم کرنی ہے اور آپسی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا۔ بقول امام خمینی(رہ) جو بھی شیعہ سنی اختلافات کی بات کرےگا نہ وہ شیعہ ہے اور نہ ہی سنی ہے۔ ہم سبھی کو اسلام اور امت مسلمہ کی ہی بات کرنی چاہئے، اسی میں مسلمانوں کی فلاح اور بہبودی ہے۔

 

ماخذ: اسلام ٹائمز [تلخیص کے ساتھ]

ای میل کریں