غربت کے مقابلے کے سلسلے میں آپ کی توجہ کا مرکز وہ تضاد بھی تھا جو جد و جہد ، سرمائے اور راحت طلبی کے درمیان پایا جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں : ’’جد و جہد، راحت طلبی اور سرمایہ ، قیام و سہل پسندی اور دنیا و آخرت طلبی دو الگ الگ چیزیں ہیں جو ہرگز یکجا نہیں ہوتی ہیں ‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۲۰،ص ۲۳۵)
امام خمینی(ره) کے نزدیک اس تضاد کی بنیاد ان دونوں کی ماہیت و حقیقت کا اختلاف ہے جیسا کہ امام خمینی(ره) کے مذکورہ جملے میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ جد و جہد آخرت پر ایمان لانے کی ماہیت کی حامل ہے جبکہ سہل پسندی و سرمایہ دنیوی ماہیت کا حامل ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر آپ خبردار کرتے ہیں کہ ’’جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ خود مختاری اور دنیا بھر کے کمزوروں اور ناداروں کی آزادی کے لئے کیا جانے والا مقابلہ سرمایہ داری اور آسائش پسندی کے منافی نہیں ہے وہ مقابلے کی ابجد تک سے نابلد ہیں اور جو یہ گمان کرتے ہیں کہ سنگدل سرمایہ دار اور دولتمند وعظ و نصیحت سے سیدھے راستے پر آجائیں گے اور وہ آزادی کے لئے اٹھ کھڑے ہونے والوں کے ساتھ ہوجائیں گے یا ان کی مدد کریں گے وہ بھی غلط فہمی میں مبتلا ہیں ‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۲۰،ص ۲۳۵)
اس سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ مجاہدین کا راستہ سرمایہ داروں کے راستے سے الگ ہوتا ہے کیونکہ مجاہدین کی نظر آخرت پر ہوتی ہے جبکہ سرمایہ دار دنیا سے دل لگائے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والوں اور اسلامی ملک میں کسی منصب پرفائز ہونے والوں کو دولت و وسائل اور سرمایہ داروں کی طاقت سے دل نہیں لگانا چاہئے اور ان کی اہمیت کا قائل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ایسا کرنا ناداروں سے روگردانی کے مترادف ہے اور جہاد کو اس کے اصلی راستے سے ہٹادیتا ہے۔ اس سلسلے میں امام خمینی(ره) کا بیان بہت صریح اور جھنجھوڑ دینے والا ہے۔ آپ فرماتے ہیں : ’’خدا تعالیٰ وہ دن نہ لائے کہ ہماری سیاست اور ہمارے ملکی حکام کی سیاست ناداروں کے دفاع سے روگردانی اور سرمایہ داروں کی حمایت پر مبنی ہو اور اغنیا اور مالداروں کو زیادہ توجہ اور اہمیت دی جائے۔ نعوذ باللہ یہ چیز انبیاء کرام ، امیر المومنین اور ائمہ معصومین (ع) کی سیرت سے ہم اہنگ نہیں ہے۔ علما کا دامن اس سے پاک ہے اور ہمیشہ پاک رہنا چاہئے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۲۰، ص ۱۲۹)
اپنے اسی نقطہ نظر کی بنیاد پر امام خمینی(ره) حق و باطل کی دائمی جنگ کو غربت و امارت کی جنگ قرار دیتے ہیں اور آپ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انبیاء ہمیشہ سرمایہ داروں سے الگ ہی رہے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ ناداروں کا ساتھ ہی دیا۔ (صحیفہ امام، ج ۴، ص ۵۹) پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے اصحاب کا تعلق بھی غربت طبقے سے تھا اور اپنے زمانے کے مخالفین کے ساتھ ان کی جنگ امیر و غریب کی جنگ تھی۔
’’اسلام کا ظہور غریب طبقے سے ہوا ہے اور وہ غریب طبقے کے لئے ہی کام کرتا ہے۔ اسلام کا ظہور اپر کلاس سے نہیں ہوا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) کا تعلق ہی غریب طبقے سے تھا۔۔۔۔ آپ کے اصحاب بھی لوئر کلاس سے تعلق رکھتے تھے امیر طبقہ پیغمبر اکرم (ص) کا مخالف تھا‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۵، ص۱۴۳)
امام خمینی(ره) غربت اور دولت کی جنگ کے جاری رہنے کی جانب اذہان کو متوجہ کرنے پر زور دیتے ہیں تاکہ اپنے عہد کے لوگوں اور آنے والی نسلوں پر واضح کردیں کہ جہاد اور سرمائے کے درمیان پایا جانے ولا تضاد ہمیشہ رہے گا اور مجاہدین کی صف ہمیشہ سنگدل سرمایہ داروں کی صف سے الگ ہی ہوگی۔ یہیں سے ایک جانب نادار طبقات اپنی ذمہ داری جان لیتے ہیں اور اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ ’’مستکبرین اگرچہ تمام وسائل رکھتے ہیں اور ان کے پاس بڑی شیطانی طاقت موجود ہے لیکن اس کے باوجود کمزوروں کو ان کے مقابلے میں اپنی قلیل تعداد کے ساتھ سید الشہداء کی طرح اٹھ کھڑا ہونا چاہئے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۹، ص ۵۷)
دوسری جانب مسلمان حکام اس جہاد کو جاری رکھنے کے حوالے سے اپنی عظیم ذمہ داری سے آگاہ ہوجاتے ہیں : ’’سختیاں جھیلنے والوں ، محاذ جنگ پر جانے والوں ، شہداء ، قید ہوجانے ولوں ، زخمیوں اور جنگ میں لاپتہ ہوجانے والے مجاہدین کے گھرانوں الغرض ناداروں کی مصلحت کو گھروں میں بیٹھے رہنے ولاوں ، محاذ جنگ، جہاد، تقویٰ اور اسلامی نظام سے گریز پا افراد کی مصلحت پر مقدم رکھنا چاہئے اور اس مقدس تحریک اور غربت و دولت کی اس جنگ کے ہر اول دستے کی اہمیت اور عزت و قدر دانی سینہ بہ سینہ اور نسلاً بعد نسل باقی رہنی چاہئے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج ۲۰، ص ۱۲۳ و ۱۲۴)