امام کے قیام کا مقصد، امر بالمعروف نہی عن المنکر

امام کے قیام کا مقصد، امر بالمعروف نہی عن المنکر

استدلال اور عقلانیت سے دوری کے نتیجے، انتہا پسندی اور دھوکہ بازی ہے۔

استدلال اور عقلانیت سے دوری کے نتیجے، انتہا پسندی اور دھوکہ بازی ہے۔

اخلاقیات کے استاد نے اس بیان کے ساتھ کہ میری نظر میں ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا اجتماعی منکر یہ ہےکہ ایک انسان آٹھ گھنٹے شرافت مندانہ کام کاج کے باوجود بھی اپنی زندگی اور اپنے گھرانے کو منجمینٹ اور نہیں چلا سکتا ہے۔

انھوں کہا: میرا سؤال یہ ہےکہ اگر حسین بن علی علیہما السلام ہمارے معاشرے میں ہوتے کس طرح عمل کرتے؟

جماران کے مطابق، مصطفی ملکیان نے کہا: امام حسین(ع) نے مدینہ سے کربلا کے سفر کے دوران جتنے بھی جملات فرمائیں ہیں وہ سب کے سب تواریخ میں درج و ضبط ہیں منجملہ آپ نے فرمایا:

" میرا مقصد یہ ہےکہ جہاں تک ہوسکے معاشرے کی اصلاح کروں "

" میں چاہتا ہوں کہ اپنے جد کی امت کے امورات کو نظم اور استحکام بخشوں "

" میں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں "

استاد مصطفی مزید کہتے ہیں: اگر کوئی شخص اجتماع کی اصلاح اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہے، اسے کن چیزوں پر سب سے زیادہ توجہ مبذول کرنی ہوگی اور اس کی نظر میں کونسے منکرات سب سے زیادہ اہم اور بنیادی طور مقدم ہونے چاہیئے؟

ملکیان نے اظہار کیا: اگر اس مسئلہ کی طرف دینی زاویے سے دیکھیں تو بہت سی احادیث میں ہے حد سے زیادہ معیشت و معاش کے پیچھے پڑھنا موجب بنتی ہے تاکہ انسان اپنی زندگی میں کبھی بھی فلاح اور سعادت کا رُخ نہ دیکھے؛ کیوںکہ آمدنی اور دولت کمانا، زندگی کےلئے ایک مقدمہ ہے اپنی جگہ کوئی مستقل ہدف نہیں اور میری نظر میں اگر آج امام حسین(ع) ہمارے درمیان ہوتے، ضرور فرماتے: ہمارے شہری آٹھ گھنٹے شرافت مندانہ کام کاج کرنے کے باوجود شرافت مندانہ زندگی نہیں رکھ سکتے اور ان کی نظر میں یہ سب سے بڑے منکرات میں سے ہے۔

انھوں نے موجودہ حالات اور شرائط کی بنیادی وجہ کے بارے میں کیا جانے والے سوال کے جواب میں اظہار رائے کی: اگر آپ دیکھتے ہیں کہ حالات اور  ہمارا معاشرہ ایسا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ ہم اپنے کام کاج کے حوالے سے اپنی پوری ذمہ داری ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں اور اس کی مہارت اور توانائی ہمارے پاس نہیں ہے، لہٰذا ہماری مشکل یہ ہےکہ معاشرے میں افراد اپنے منصب اور مقام پر ضروری مہارت، توانائی اور تجرہہ کے تناسب اپنے عہدے پر نہیں ہیں۔

کاردان، توانا اور ماہر افراد کو چاہیئے کہ معاشرے کا باگ دوڑ اور انتظام اپنے ہاتھوں میں لیں اور تعلقات کی بنیاد پر یعنی وہ افراد جو فلاں صاحب منصب یا فلاں وزیر اور فلاں وکیل کے ساتھ اچھے روابط رکھتے ہیں اور اپنی وفاداری دیکھا چکے ہیں، عہدے اور منصب پر قبضہ نہ کریں۔

ہمارے معاشرے میں طاقت اور تعلقات، استدلال اور دلیل کی جگہ پر قابض ہیں اور استدلال اور دلیل پیش کرنے کے بجائے کہ کون فرد زیادہ کاردان، ماہر اور اس منصب اور کام کےلئے زیادہ مناسب اور حقدار ہے، طاقت و تعلقات اور اقتدار کی نشان دہی کی جاتی ہے۔ جب بھی معاشرے سے استدلال اور عقلانیت ناپیدا ہوتی ہے دو چیزیں اس کی جگہ نمایاں ہوتی ہیں: ایک تشدد اور انتہا پسندی؛ دوسری، دھوکہ اور فریبکاری۔

ہیومینٹیز کے محقق نے آخر میں کہا: امام حسین علیہ السلام کا قیام صرف اس لئے نہیں تھا کہ یزید بن معاویہ بندر باز اور شراب خوار تھا، یہ عظیم اور تاریخی قیام اور تحریک اہم ترین علل و عوام پر قائم تھا، بلکہ اسلامی معاشرے میں تعلقات کی بنیاد پر عزل اور نصب کرنا اور بیت المال مسلمین کو آںکھ بند کرکے بے دردی کے ساتھ خورد برد کرنا، یہ دو عنصر تھے جس نے امام حسین(ع) کو یزید پلید کے خلاف قیام پر مجبور کیا۔

 

ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ

ای میل کریں