فلسفہ انتظار فرج کے بارے میں امام خمینی (ره) کے نقطہ ہائے نگاہ

فلسفہ انتظار فرج کے بارے میں امام خمینی (ره) کے نقطہ ہائے نگاہ

امام خمینی(ره) کے لغت میں انتظار کے معنی، حضرت امام زمانہ (ع) کی حکومت مقدسہ کے قیام کے لئے انفرادی اور اجتماعی آمادگی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور یہ وہی مفہوم ہے جس کی طرف شیعی ثقافت میں اشارہ کیا گیا ہے اور ائمہ معصومین (ع) کی روایات میں اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسی لئے ہر باانصاف محقق نظریہ انتظار کے احیا میں امام خمینی(ره) کے عظیم کردار کا معترف ہوجائے گا اور اس حقیقت تک رسائی حاصل کرلے گا کہ گزشتہ صدیوں کے دوران امام خمینی(ره) کی نجات آفرین تحریک سے زیادہ کوئی اور تحریک ظہور حضرت حجت (ع) کے لئے فضاسازگار بنانے میں ممد و معاون ثابت نہیں ہوئی ہے

اسلامی انقلاب کے بانی نے اپنے ایک بیان میں امام زمانہ (ع) کے ظہور کے بارے میں پائے جانے والے مختلف مفاہیم کی درجہ بندی کرنے کے بعد اس طرح ان کا جائزہ لیا ہے:


١۔ انتظارفرج کےمعاملے میں حضرت امام خمینی(ره) نے اپنے پہلے اس نقطہ نگاہ کا جائزہ لیا ہے جس کے تحت امام(ع) کے زمانہ غیبت میں صرف آپ(ع) کے ظہور میں تعجیل کی دعا کرنی چاہئے۔  امام خمینی(ره)  اس  طرح  کے نقطہ نگاہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

''بعض لوگوں کے خیال میں انتظار فرج کا مطلب ہے مسجد ، امام  بارگاہ  یا  گھر میں بیٹھ کر خداوند عالم سے امام زمانہ (ع) کے ظہور کے لئے دعا کرنا اور جو اس طرح کے عقیدے کے حامل ہیں وہ صالح افراد ہیں بلکہ ان  میں سے ایک شخص جسے میں پہلے جانتا تھا بہت نیک انسان تھا، اس نے ایک گھوڑا بھی خرید لیا تھا، اس کے پاس ایک تلوار بھی تھی اور یہ شخص امام زمانہ (ع) کا منتظر تھا اس طرح کے لوگ تھے جو اپنے شرعی فرائض بھی انجام دیتے، برائیوں سے منع کرنے اور اچھائیوں کی طرف دعوت بھی دیتے تھے اور بس یہی اس کے علاوہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے اور نہ ہی وہ کسی کام کی انجام دہی کے بارے میں سوچتے تھے''۔ (صحیفہ امام، ج ٢٠،ص١٩٦)


٢۔دوسرا نقطہ نظر جس کی طرف حضرت امام خمینی(ره) اشارہ کرتے ہیں وہ پہلے والے نقطہ نگاہ سے زیادہ ملتا جلتا ہے، فرق صرف یہ ہےکہ دوسرے  نقطہ نگاہ میں معاشرے کے بارے میں ہر مسلمان شخص کی ذمہ داری کلی طور پر فراموشی کے سپرد کی جاتی اور حتی کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے بھی غفلت برتی جاتی ہے:

''ایک اور گروہ کا انتظار فرج کے بارے میں کہنا تھا کہ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہئے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے ، قوموں پر کیا گزررہا ہے، ہماری قوم پر کیا بیت رہی ہے؟ ان باتوں سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں اور ان (مذکورہ) باتوں کی روک تھام کے لئے خود حضرت حجت (ع) تشریف لائیں گے اور ان مسائل کو سلجھادیں گے! اور ہمارے اوپر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، ہماری ذمہ داری صرف یہی ہے کہ دعا کریں کہ آپ (ع) ظہور فرمائیں اور دنیا میں کیا ہورہا ہے ، ہمارے اپنے ملک میں کیا گزر رہا ہے، ان باتوں سے ہمارا کسی قسم کا تعلق نہیں ہونا چاہئے ! یہ بھی لوگوں کا ایک گروہ تھا جو نیک تھے''۔ (صحیفہ امام، ج٢٠،ص١٩٦)

امام خمینی(ره) آگے چل کر ان دو نقطہ ہائے نظر کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اگر ہمارے ہاتھ میں ہو اور ہمیں اقتدار حاصل ہو تو دنیا سے ہر قسم کے ظلم و ستم کا خاتمہ کرنا چاہئے۔ یہ ہماری شرعی ذمہ داری ہےلیکن ہم اس (کی ادائیگی) سے عاجز ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت امام زمانہ (عج) دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہوجائیں یا آپ پر اب کوئی ذمہ داری عائد ہی نہیں ہوتی''۔ (صحیفہ امام، ج٢٠،ص١٩٧)

 

٣۔حضرت امام خمینی(ره) کے فرمودات میں ذکر ہونے والا امام زمانہ(ع) کےظہور کا تیسرا  مفہوم ان لوگوں کی رائے ہے کہ جو بعض روایات کے مطابق ہے جن میں کہا گیا ہے کہ حضرت قائم آل محمد (ع) اس وقت ظہور فرمائیں گے جب دنیا فتنہ و فساد اور ظلم سے بھر جائے گی اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ زمانہ غیبت امام (ع) میں معاشرے میں پائی جانے والی گمراہیوں اور برائیوں سے ہمارا کوئی سرو کار نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمیں معاشرے کو اپنے حال پر چھوڑ  دینا  چاہئے  تاکہ  خود بخود ظہورحضرت حجت (ع) کے لئے فضا سازگار ہوسکے! چنانچہ امام خمینی(ره) نے فرمایا ہے:

''ایک گروہ کہتا تھا کہ اچھا ہے دنیا معصیت اور گناہ سے پر ہوجائے تاکہ حضرت امام زمانہ (ع) تشریف لاسکیں۔ ہمیں نہی عن المنکر نہیں کرنا چاہئے اور امر بالمعروف کو بھی چھوڑ دینا چاہئے تاکہ لوگ جو چاہیں کر سکیں اور گناہ زیادہ ہوجائیں تاکہ ظہور امام (ع)  قریب تر ہوسکے!''۔ (صحیفہ امام، ج٢٠،ص١٩٦)

 

٤۔چوتھا نقطہ نگاہ تیسرے نقطہ نگاہ کی افراطی شکل ہےاور اس کے ماننے  والے اس بات کے قائل ہیں کہ نہ صرف ہمیں معاشرے میں پائی جانے والی معصیتوں اورگناہوں کا نہیں روکنا چاہئے بلکہ ہمیں خود گناہوں کا ارتکاب کرنا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ ظہور امام زمانہ (ع) کے لئے فضا سازگار ہوسکے۔ اس بارے میں امام خمینی(ره) فرماتے تھے:

''ایک گروہ اس سے بڑھ کر کہتا ہے کہ گناہوں کا ارتکاب کرنا چاہئے اور لوگوں کو گناہ کی دعوت دینی چاہئے تاکہ دنیا ظلم و ستم سے بھر جائے اور حضرت مہدی (ع) تشریف لا سکیں! یہ بھی ایک گروہ تھا۔ البتہ اس میں کچھ گمراہ لوگ بھی شامل تھے اور اس کے علاوہ سادہ لوح افراد اور ایسے گمراہ لوگ بھی تھے جو بعض مقاصد کو سامنے رکھ کر گناہوں کا ارتکاب کرتے تھے''۔ (صحیفہ امام، ج٢٠،ص١٩٦ و ١٩٧)

 

٥۔حضرت امام خمینی(ره) نے اپنے  ارشادات  میں جس پانچویں نقطہ نگاہ  کا  ذکر  کیا  ہے وہ ان لوگوں کی رائے ہے جس کے تحت غیبت امام (ع) کے زمانے میں حکومت کے قیام کے لئے کیا جانے والا ہر اقدام شریعت کے منافی ہے اور ان کا خیال ہے کہ یہ بات نص روایات سے بھی متصادم ہے۔ امام خمینی(ره) فرماتے ہیں:

''ایک اور گروہ کہتا تھا کہ زمانہ غیبت امام (ع) میں تشکیل پانے والی ہر قسم کی حکومت باطل اور اسلام کے خلاف ہے! اس طرح کے لوگ مغرور لوگ تھے جو شعبدہ باز نہیں تھے۔ وہ بعض منقولہ روایات پر مغرور تھے جن میں کہا گیا ہے کہ حضرت حجت (ع) سے قبل جو بھی پرچم اٹھایا جائے گا وہ باطل کا پرچم ہوگا، وہ سوچتے تھے کوئی بھی حکومت (درست) نہیں ہے جبکہ ان روایات میں جو کہا گیا ہے کہ کوئی بھی علم بلند کرے... اس سے مراد مہدویت کے عنوان سے لہرایا جانے والا علم ہے۔ اب ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ایسی روایات پائی جاتی ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہماری ذمہ داری ختم ہوگئی ہے؟''۔ (صحیفہ امام، ج٢٠،ص١٩٧)

ای میل کریں