خوارزمی یونیورسٹی

خارجہ پالیسی میں ہر قسم کے غلبہ کی نفی

انٹرنیشنل ریلیشنز میں خوارزمی یونیورسٹی سے پہلی پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کردہ طالبعلم نے بیان کیا

محمد محمودی کیا نے خارجہ سیاسی پالیسی میں امام خمینی رہ کی نمایاں خصوصیات کو بیان کرتے ہئوے کہا:آزادی اور خارجہ پالیسی میں ہر قسم کے زور و زبردستی اور غلبہ کی نفی کرنا اور تفوق طلبی خارجہ پالیسی میں امام رہ کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے۔

پویا نیوز کے ثقافتی گروہ کی  رپورٹ کے مطابق:خارجہ پالیسی، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں امن و امان، بین الاقوامی اعتماد، قومی اہداف و مقاصد نیز پالیسیوں کی ترقی کی راہ میں سب سے اہم عنصر ہے۔

سیکورٹی،بین الاقوامی سیاسی اہداف،ملکی پروگرام ،سیاسی،اقتصادی اور ثقافتی میدان میں  اہم اوزار میں سے ہے۔امام خمینی رہ اور رہبر معظم کی نگاہ میں خارجہ پالیسی کی خصوصیات پر سر سری نگاہ ہمیں خارجہ پالیسی کے اہم اور عمیق نکات سے آشنا کرتی ہے  اس بارے میں ہم نے محمد محمودی کیا انٹرنیشنل ریلیشنز میں خوارزمی یونیورسٹی سے  پہلی پی ایچ ڈی حاصل کر دہ طالبعلم  سے گفتگو کی :

انھوں نے امام رہ کی نگاہ میں خارجہ پالیسی کے اہداف کے بارے میں کہا سب سے پہلے جس نکتے کی طرف توجہ کرنا چاہیے وہ یہ ہیکہ امام رہ خارجہ پالیسی میں ایک خاص منطقی ترتیب کے قائل ہیں اسی کی بنا پر خارجہ پالیسی کے امور کی راہنمائی کرتے ہیں حالانکہ خارجی پالیسی میں امام رہ کا کوئی تعلیمی کام نہیں ہے۔

لیکن اس میدان میں آپ کی رفتار و گفتار کی حکمت عملی کا دقیق مطالعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ آپ خارجہ پالیسی کے میدان میں ایک خاص نظریہ ایکشن ریاکشن (عمل و رد عمل) کے قائل تھے جس میں زمان و مکان جیسے دو عناصر کا خاص رول ہے.

 انھوں نے امام خمینی رہ کی زندگی کے دوسرے پہلوں اور تحمیلی جنگ کے بارے میں بولتے ہوئے کہا:اس مسئلے کو بیان کرنے کے لئے پہلے اس نکتہ کی طرف توجہ کرنی کی ضرورت ہے کہ بنیادی طور پر بین الاقوامی روابط اور حقیقت پسندانہ نگاہ میں خارجہ پالیسی  کے میدان میں بنیادی عنصر اور مقدس لفظ قومی اور ملکی مفادات کا تصور ہے

خارجہ پولیسیوں کے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے تمام  تمام رویوں،حکمت عملی کو منظم اور ایک جہت دی جاے لکین جو نکتہ امام رہ کے افکار کو ممتاز بناتا ہے وہ یہ ہے کہ امام رہ کی نظر میں ایک خاص قوم نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر قومی مفاد ہیں وہ صدرائی نظریہ سے اور عالمی نظریہ کثرت در عین وحدت سے متاثر تھے انھوں نے ملکی مفادات کو بھی اپنی نظر میں رکھا اور قومی مفادات سے بھی غافل نہیں تھے آپ ان دونوں چیزوں کو ساتھ لے کر چلتے تھے جو آپ کے ادبی اور تقریری مجموعہ صحیفہ امام میں وضاحت کے ساتھ موجود ہیں۔

میں آپ کے سوال کے جواب میں کہوں گا اس مرحلے میں امام رہ اسلامی انقلاب کے نفاذ کو پھلانے اور اس کے اقدار اور روحانیت کو صادر کرنے میں مرکوز تھے۔

جیسا کے آپ فرماتے ہیں ہم نے انقلاب کو جنگ کی حالت میں دنیا تک پہنچایا جہاں تک میں سمجتھا ہوں تحمیلی جنگ نے ایک اسلامی جمہوریہ کی مذہبی خارجہ پالیسی کے لئے موقع فراہم کیا،بقول رہبر انقلاب خالص محمدی اسلام اور امریکی اسلام  کے درمیان سرخ لائن تھی۔

ای میل کریں