1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب رونما ہوا تو ایران کے اسرائیل کے ساتھ جو سفارتی تعلقات شاہی دور میں قائم ہوئے تھے، انہیں ختم کر دیا گیا۔ تہران میں موجود اسرائیلی سفارتخانے کی عمارت فلسطینی قیادت کے حوالے کر دی گئی۔ اس حوالگی کے موقع پر فلسطینی راہنما یاسر عرفات کو تہران میں آنے کی دعوت دی گئی۔ یہ جدید سیاسی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ تھا۔ اس نے ظاہر کر دیا کہ ایران کی نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کا رخ کیا ہے۔ اس نے تل ابیب، واشنگٹن اور ان کے اتحادیوں کے ہاں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں، کیونکہ جدید استعمار کی سامراجی پالیسیوں کے کارنر اسٹون کا نام اسرائیل ہے۔ اگر اسرائیل کی مسلط کی گئی ریاست خطے سے اکھڑ جاتی ہے تو وہ ورلڈآرڈر جو دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم کیا گیا ہے، کی بنیادیں لرزہ براندام ہو جائیں گی۔ اس سے اٹھنے والا سیاسی زلزلہ سامراجی نظام کو زمین بوس بھی کرسکتا ہے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر استعماری طاقتوں نے نہ فقط اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اجتماعی منصوبہ بندی شروع کی بلکہ عالم اسلام اور خاص طور پر مشرق وسطٰی میں اسرائیل کو استحکام دینے اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لئے فوری اور دوررس فیصلے کئے۔ ان میں ایک فیصلہ یہ تھا کہ اسرائیل کے خلاف نبردآزما قوتوں کو امن مذاکرات کے نام پر مصروف کیا جائے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی دو ریاستی نظریئے پر زیادہ زور دینے لگے۔ علاقے میں ان کے حامی بھی اس نظریئے کی تائید کرنے لگے۔
شروع شروع میں اسرائیل سے مذاکرات کی بات اتنی آسان نہ تھی، کیونکہ عالم اسلام اور خاص طور پر عالم عرب اسرائیل کے وجود کو ایک ناجائز اور علاقے میں بیرونی وسائل سے مسلط کی گئی ریاست کے طور پر دیکھتا تھا۔ اسرائیل سے تعلقات کے لئے کوئی عرب ملک جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ پھر کیا ہوا، عالم عرب میں نقب لگائی گئی اور مصر کے صدر سادات کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لئے آمادہ کر لیا گیا۔ اس کے لئے بظاہر تو 1967ء کی جنگ میں اسرائیل کے قبضے میں چلا جانے والا صحرائے سینا مصر کو واپس مل گیا، لیکن درحقیقت وہ اب بھی پوری طرح مصر کے اختیار میں نہیں ہے، کیونکہ مصر نہ اس علاقے میں فوج رکھ سکتا ہے، نہ مشقیں کرسکتا ہے اور نہ وہاں چھاؤنی قائم کرسکتا ہے۔ یہ سب کچھ اس معاہدے کا حصہ ہے، جس کے نتیجے میں بظاہر صحرائے سینا مصر کو واپس مل گیا اور مصر نے اسرائیل کے ساتھ دوستی کرلی، نہ فقط سفارتی تعلقات قائم ہوگئے بلکہ محبتوں کے ایسے مظاہرے کئے گئے، جیسے دونوں بچھڑے ہوئے دوست تھے، جو امریکہ کی سرپرستی میں ایک دوسرے سے مل گئے۔ اس طرح سے قاہرہ وہ پہلا عرب دارالحکومت تھا، جہاں اسرائیلی سفارتخانہ قائم ہوگیا۔ عرب دنیا میں ابھی غیرت کا چلن باقی تھا۔ عرب لیگ نے مصر کی رکنیت ختم کر دی، پورے عالم اسلام نے اس اقدام پر نفرت کا اظہار کیا اور مصری حکومت کی مذمت کی۔ پھر بات آگے بڑھی، مصر کے تعاون سے اور امریکہ کی سرپرستی میں یاسر عرفات جو فلسطین کی جدوجہد آزادی کے ہیرو تھے، انہیں بھی قائل کر لیا گیا کہ جہاد کے راستے سے اب فلسطین آزاد نہیں ہوسکتا۔
اسرائیل ایک طاقتور ریاست کی حیثیت سے اب خطے کی ایک حقیقت بن چکا ہے، لہٰذا اگر آپ چاہیں تو جن علاقوں میں فلسطینی آباد ہیں، ان میں سے مغربی کنارے اور غزہ میں ایک خود مختار فلسطینی ریاست قائم کر دیتے ہیں اور باقی معاملات بھی آہستہ آہستہ حل کر لیں گے۔
اس کے نتیجے میں اسرائیل اور یاسر عرفات کے مابین ایک معاہدہ ہوگیا لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
بظاہر جو خود مختار فلسطینی ریاست قائم کی گئی، اس کے دونوں زمینی ٹکڑے بھی آپس میں نہ ملتے تھے۔ پھر اس کے اندر ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں فلسطینی پولیس اسرائیل کی اجازت کے بغیر اسلحہ منتقل نہیں کرسکتی تھی۔ اس نام نہاد خود مختار ریاست کو کہیں سفارت خانہ قائم کرنے کی اجازت نہ تھی۔ فلسطین کی بظاہر خود مختار ریاست باہر سے کوئی مالی امداد بھی اسرائیل کی اجازت کے بغیر حاصل نہ کر سکتی تھی۔ اس ریاست کا بجٹ بھی اسرائیل کے گریٹر بجٹ کا حصہ تھا، یہاں تک کہ اس معاہدے کی روشنی میں یاسر عرفات اور اس کی کابینہ کی تنخواہ بھی اسرائیل سے آتی تھی۔ اس ریاست کو وہ اختیارات بھی حاصل نہ تھے، جو ہمارے ہاں ایک بلدیہ کو حاصل ہوتے ہیں۔ یاسر عرفات بعد میں متوجہ ہوئے کہ انہیں دھوکہ دیا گیا ہے، لیکن معاملہ اب ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ ان کا محاصرہ کر لیا گیا اور انہیں آہستہ آہستہ موت کے حوالے کر دیا گیا۔ خود ان کی زندگی ہی میں ان کی پارٹی سے محمود عباس جیسے لوگ اسرائیل کی ہمنوائی کے لئے نکل آئے۔ یاسر عرفات نے لاکھ فریادیں کیں کہ محمود عباس پر انہیں اعتماد نہیں، لیکن جنہیں اس پر اعتماد تھا انہوں نے اسی کو یاسر عرفات کا جانشین بنا دیا اور وہ آج بھی اسرائیل اور امریکہ کی گڈ بکس میں ہے اور حالیہ ریاض کانفرنس میں صدر ٹرمپ کی نظر عنایت جن پر رہی، ان میں محمود عباس بھی نمایاں ہیں۔
یاسر عرفات کے ساتھ جو معاہدے کئے گئے، اس کے مطابق اسرائیل کو نئی یہودی بستیاں بسانے کی اجازت نہ تھی۔ یہ پابندیاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی عائد کر رکھی تھیں، لیکن اسرائیل یہ بستیاں بساتا رہا۔ دنیا کے بڑے بظاہر اس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے رہے، لیکن ان کے بالائے لب کچھ اور تھا اور زیر لب کچھ اور۔ اصل میں ان کی ناز برداریوں کے نتیجے میں اسرائیل اپنے پَر پرزے پھیلاتا رہا اور اس نے زندہ رہنے کا حق مانگنے والے فلسطینیوں کا ناطقہ مسلسل بند کئے رکھا۔ بظاہر امریکہ اور اس کے اتحادی دو ریاستی نظریئے کو مسئلے کا واحد حل کہتے رہے، لیکن ان کے دلوں میں کچھ اور تھا، جو آخر کار صدر ٹرمپ کے حالیہ دورہ اسرائیل کے موقع پر آشکار ہوگیا۔ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ریاض کی ’’کامیاب‘‘ کانفرنس کے بعد اسرائیل پہنچے تو انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں ایسی بات کہہ دی، جو گذشتہ کئی دہائیوں سے امریکی موقف سے مختلف تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعہ کے خاتمے اور خطے میں امن کے لئے ’’دو ریاستی حل‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یک ریاستی حل‘‘ پر بھی غور کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے بھی اپنے ایک مضمون میں بتا چکے ہیں کہ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق مبصرین امریکی صدر کے اس بیان کو واشنگٹن کی عشروں پرانی پالیسی سے انحراف قرار دے رہے ہیں۔ خود فلسطین کی جانب سے بھی اس پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور فلسطینیوں نے کہا ہے کہ شاید امریکہ ان کی ریاست کے قیام میں حمایت سے دستبردار ہو رہا ہے۔
بی بی سی نے مزید لکھا ہے کہ دو ریاستی حل مشرق وسطٰی میں امن کا وہ ممکنہ فریم ورک ہے، جس پر عرب لیگ، یورپی یونین، روس اور اوباما دور تک امریکہ سمیت دنیا بھر کے بیشتر رہنما اتفاق کرتے رہے ہیں۔ اس فریم ورک کے تحت 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ سے قبل کی اسرائیلی حدود کے مطابق غرب اردن، غزہ پٹی اور مشرقی یروشلم میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔ اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں میں اس فریم ورک کی تائید کی گئی ہے۔ گویا آج اسرائیلیوں کی حمایت میں جن سے توقع رہی، انہوں نے بھی فلسطین اور فلسطینیوں کی طرف پشت کر لی ہے۔ علاقہ کے عرب حکمرانوں کی ماہیت رفتہ رفتہ ظاہر ہو رہی ہے۔ ہمیں اس موقع پر یاد آتا ہے کہ جب امام حسینؑ کا قافلہ کوفہ کی طرف رواں تھا اور کوفہ سے آنے والا ایک شخص قافلے والوں سے ملا، اسے کسی نے پوچھا کہ کوفہ کا کیا حال ہے تو اس نے کہا: کوفہ والوں کے دل تو امام حسینؑ کے ساتھ ہیں، لیکن تلواریں ابن زیاد کے ساتھ ہیں۔ ہمیں یوں لگتا ہے کہ آج کے بیشتر حکمرانوں کے دل بھی اسرائیل کے ساتھ ہیں، ہاں البتہ ان کی ماہیت سے عرب عوام آگاہ ہو رہے ہیں اور عرب عوام کے دل ضرور القدس اور فلسطین کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ یہ وہ پس منظر ہے، جس کی وجہ سے ہماری رائے میں ’’اس مرتبہ یوم القدس کی خاص اہمیت‘‘ ہے۔
اس یوم القدس کی بنیاد امام خمینیؒ نے رکھی تھی، تاکہ دنیا بھر کے حق پرست انسانوں کے سامنے مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو کم از کم سال میں ایک مرتبہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ پر اجاگر کیا جائے۔ ایران آج بھی امام خمینی کی قلبی خواہش کے مطابق فلسطین کے مظلوم عوام اور قدس شریف کے ساتھ ہے۔ دنیا میں بھی منافقوں کے چہروں سے نقاب اتر رہا ہے اور حقیقتیں آشکار ہو رہی ہیں۔ ٹرمپ کے حالیہ دورہ مشرق وسطٰی نے رہا سہا پردہ بھی اٹھا دیا ہے۔ اب یہ بات واضح ہو کر سامنے آگئی ہے کہ ہمارے بیشتر حکمران عوام کے افکار اور جذبات کی ترجمانی نہیں کرتے۔ اب مسئلہ خود عوام کی طرف لوٹ آیا ہے اور عوام ہی ہیں، جو آئندہ اپنی قسمت کے فیصلے اپنے ہاتھوں سے لکھیں گے۔ القدس اور فلسطین کی آزادی عوام ہی کی جدوجہد سے ممکن ہوسکے گی، فلسطین کے عوام آج بھی حوصلے اور صبر کے ساتھ ظلم کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ آیئے اس مرتبہ یوم القدس کے موقع پر ہم مل کر یہ اعلان کریں کہ اے قدس! ہم تجھے فراموش نہیں کریں گے، اے اہل فلسطین! ظلم کی رات ایک دن چھٹ جائے گی اور آزادی کی ایک نئی صبح طلوع ہوگی، قرآن کی آواز آ رہی ہے۔۔۔۔۔۔
اَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ
کیا صبح نزدیک نہیں ہے
تحریر: ثاقب اکبر