ڈاکٹر مصطفوی: اس وقت تنہا اسلامی انقلاب کی بنیاد پر مبنی اسلامی سوچ جس کو امام خمینی، خالص اسلام سے یاد کرتے تھے، "عالمی صیہونیت" کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ امام خمینی کی نکتہ نگاہ سے مساله فلسطین کو مختلف زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے لیکن مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہےکہ امام خمینی، عالمی صیہونیت اور سامراج کے خلاف جنگ کو، فلسطین اور قدس کی مرکزیت میں مستضعفین اور ان کے درمیان دائمی جنگ سمجھتے تھے۔ نیز اسلامی جمہوریہ ایران کی اسلامی تحریک کو اس تصویر کا دوسرا رخ تصور کرتے تھے اور اسلامی تعلیمات کو اس تقابل کی اساس سمجھتے تھے۔ امام خمینی کی نگاہ میں "عالمی صیہونیت" نے ان کے خلاف مزاحمت کرنے والی تمام مذہبی اور غیر مذہبی تعلیمات کو تقریبا خلع سلاح کیا تھا اور اس وقت تنہا اسلامی انقلاب کی بنیاد پر مبنی اسلامی سوچ جس کو امام خمینی، خالص اسلام سے یاد کرتے تھے، "عالمی صیہونیت" کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے۔
اور بین الاقوامی سطح پر تبادلہ خیال ہوتے ہوئے رجحان اور اس بات کے پیش نظر کہ حقیقت میں معرکہ آرائی دین اسلام اور استبدادی سوچ کی حامل صہیونیزم کے درمیان ہے، دنیا کے مظلوم طبقے کہ جن کو امام خمینی نے "مستضعفین" کے نام دیا ہے، اسلام کے نظریے سے متاثر ہوکر صیہونیزم کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے کامیابی کی توقع کرسکتے ہیں۔ اور دوسری جانب فلسطین چونکہ اس جنگ کا پہلا مرحلہ ہے لہذا فلسطین کی آزادی کی حمایت، عالمی وظیفہ ہے جس سے کسی کو بھی اظہار لاتعلقی نہیں کرنا چاہئے۔
امام خمینی رحمت اللہ علیہ اس بات پر تاکید کرتے تھے کہ اگر اسرائیل کی صورت میں موجود کینسر زدہ پھوڑے کو علاقائی حکومتوں کی جانب سے پذیرائی حاصل ہوئی تو اس کا مطلب مشرق وسطی کےلئے عدم تحفظ، پسماندگی، عدم استحکام اور دیگر درجنوں منفی صفات کو تسلیم کرنے کا مترادف سمجھا جائےگا۔
امام خمینی کی نظر میں، مغربی معاشرے میں حاکم فضا صہیونی فکر اور سامراجی اصولوں پر مبنی ہے جو علاقے میں صیہونی حکومت کے قیام اور اس کے استحکام میں معاون و مددگار ثابت ہو رہی ہے اور اس تلخ داستان کو رقم کرنے میں مشرقی اور مغربی سامراجی قوتیں برابر کی شریک ہیں۔
ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ اینڈ جمہوری اسلامی روزنامہ