امام(رح): ہمیں معلوم ہےکہ یہودی کمیونٹی کا معاملہ صهیونیزم سے بالکل الگ تھلگ ہے اور ہم صہیونیوں کے مخالف ہیں۔ ان کا یہودیت سے کوئی واسطہ نہیں۔
جماران کے مطابق، ڈاکٹر مصطفوی کا کہنا تھا: امام خمینی رحمت اللہ علیہ، یہودیت اور صیہونیزم کو مخلوط کرکے پیش کرنے کی استعماری سازشوں پر بہت فکرمند تھے، یہ سازش مسلمانوں اور یہودیوں کو الجھانے کی سامراجی کوشش ہے۔ امام خمینی اس بات کے معتقد تھےکہ صیہونیزم حقیقی کردار کی حامل شخصیت کا نام نہیں ہے۔ اسی لئے ان کی جارحانہ پالیسی کے حق میں دنیا کے یہودیوں کی حمایت حاصل کرنے میں وہ ناکام رہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہےکہ وہ اپنے فریبی پروپیگنڈے اور چالبازیوں سے دونوں مذاہب " اسلام اور یہودیت " کے پیروکاروں کو حالت جنگ میں قرار دینے کی غیر انسانی تلاش کرتے رہیں۔
امام خمینی معتقد تھےکہ صہیونیزم، یہودیوں اور مسلمانوں میں سے ہر ایک پر الگ طریقے سے جارحانہ قبضے کی پالیسی اختیار کر چکی ہے، تاہم صهیونی ڈیزائنروں نے یہودیت اور صیہونیت کو اس طرح ملایا ہےکہ کسی میں ان دونوں کو الگ کرنے کی جرئت نہیں۔
امام خمینی فرماتے ہیں: « ہمیں معلوم ہےکہ یہودی کمیونٹی کا معاملہ صهیونیزم سے بالکل الگ تھلگ ہے اور ہم صہیونیوں کے مخالف ہیں۔ ان سے مخالفت کی وجہ یہ ہےکہ وہ تمام ادیان کے مخالف ہیں۔ ان کا یہودیت سے کوئی واسطہ نہیں۔ صہیونیزم کچھ سیاسی عناصر کانام ہیں جو یہودیت کے نام پر کارستانیاں انجام دے رہے ہیں اور ان سے یہودی کمیونٹی بیزار ہے اور تمام انسانوں کو ان سے نفرت کرنی چاہئے۔ تمام مسلمانوں کو یہودیوں کے حقوق اور حدود کی رعایت کرنا ضروری ہے جس طرح اسلامی جمہوریہ ایران نے پارلیمنٹ میں ایک نشست یہودی کمیونٹی کےلئے مختص کردی ہے تاکہ وہ اپنی رائے کے مطابق، اپنا نمائندہ انتخاب کریں۔
امام خمینی رحمت اللہ علیہ، اسرائیل کی نابودی تک اسرائیل سے نمٹنے کو تمام لوگوں کا وظیفہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے بار بار اس جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی ہےکہ دشمن کی کامیابی کا راز مسلمانوں کے آپسی اختلاف میں مضمر ہے۔ اسی تناظر میں آپ نے فرماتے ہیں: « اگر مسلمانوں کے آپس میں اختلاف نہ ہوتا تو کیا اسرائیل جیسی چھوٹی ریاست مسلمانوں کی حیثیت کو پاوں تلے روندنے کی جرئت ہوتی؟ مسلمانوں کے آپس میں اختلاف نہ ہوتا تو کیا امریکہ تمام ممالک پر راجدھانی کرتے ہوئے تمام ممالک کے وسائل پر قابض ہونے میں کامیاب ہوتا؟»
ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ