مجمع تشخیص مصلحت نظام کے بارے میں ایک راز

مجمع تشخیص مصلحت نظام کے بارے میں ایک راز

شورائے نگہبان کے بعض فقہاء نے امام خمینی کی شاگردی حیثیت کو نظر انداز کرتے ہوئے حوزہ علمیہ میں موجود مراجع اور ناقدین کی نمائندگی کو اپنا وظیفہ سمجھا!! (حصہ ۲)

شورائے نگہبان کے بعض فقہاء نے امام خمینی کی شاگردی حیثیت کو نظر انداز کرتے ہوئے حوزہ علمیہ میں موجود مراجع اور ناقدین کی نمائندگی کو اپنا وظیفہ سمجھا!!

بسم­الله الرحمن الرحیم

آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی، ایران میں مصلحت کے حوالے سے بحث و گفتگو کا نقطہ آغاز تھے ...

آیت الله العظمی محمد رضا گلپائیگانی کی جانب سے امام خمینی کے نام ایک غیر شائع شدہ  ٹیلی گراف موجود ہے جس کا جواب امام خمینی کی رحلت کے دس برس بعد تک شائع نہیں کیا جاتا جبکہ فقہی نقطہ نگاہ سے آیت الله گلپائیگانی کا ٹیلی گراف اور امام خمینی کا جواب، اس دور کے عظیم شیعہ مراجع کے درمیان، تبادلہ خیال ہونے والے اہم متن کی حیثیت سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

امام خمینی نے آیت الله العظمی گلپائیگانی کے غیر شایع شدہ ٹیلی گراف اور پارلیمنٹ کو دئے گئے اختیارات پر مبنی اعتراض کے جواب میں، ارکان پارلیمنٹ کو عرف کے نمائندے کے عنوان سے یاد کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو مصلحت کی تشخیص کے اصلی مرجع کے طور پر متعارف کیا ہے؛ اس ضمن میں آپ نے فرمایا: " مذکورہ اختیارات موضوع کی تشخیص سے متعلق ہے جو عرف اور شریعت دونوں کی نظر میں اس کی تشخیص عرف پر عائد ہوتی ہے اور مجلس شورائے اسلامی میں موجود اراکین، عرف کی نمائندہ جماعت ہے ... تاہم قانونی اعتبار سے شورائے نگهبان، موضوعات کی تشخیص کا حق نہیں رکھتی"۔

(ماخذ: صحیفه امام، ج‏15، ص312)

امام خمینی در حقیقت، حوزے کے اس بنیادی اصل کی جانب اشارہ کرنا چاہتے تھے کہ جس میں احکام ثانویہ، جیسے نقصان، مصلحت اور حرج جیسے موضوعات کے مصادیق کی نشاندہی " ماہرین عرف " کو کرنی چاہئے نہ کہ فقہاء کو اور اختلاف کی صورت میں ارکان پارلیمنٹ، عرفی مصادیق کی تشخیص کےلئے عرف کے نمائندے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہےکہ مصلحت ایک " عرفی اور جمہوری " مفہوم ہے یہی وجہ ہےکہ جس طرح کہ  آیت الله ہاشمی نے بھی اشارہ کیا ہےکہ امام خمینی پہلے مرحلے میں مصلحت کی تشخیص کےلئے پارلیمنٹ کو ہی مرجع قرار دیتے تھے۔

آیت الله العظمی گلپائیگانی، آیت الله العظمی روح اللہ الخمینی الموسوی اور آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کے مد نظر، مصلحتوں کی نوعیت کو  قبول نہیں کرتے تھے، تاہم ہاشمی کے پہلے خط کی طرح وہ اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ احکام ثانویہ کے حوالے سے حتمی فیصلہ پارلیمنٹ کی بجائے خود " ولی فقیہ " کو کرنا چاہئے؛ اگرچہ ان کی یہ بات کسی حد تک اپنے موقف سے عقب نشینی کی عکاسی کرتی تھی، تاہم امام خمینی نے واضح کردیا: " ابتدائی احکام کا ولایت کے نفاذ سے کوئی تعلق نہیں "۔

ہاشمی، پارلیمنٹ کے مقابلے میں صدر کے موقف کی روایت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: جب صدر مملکت نماز جمعہ میں اس بات کا اعلان کرتے ہیں: "پارلیمنٹ کو اجارہ اور زراعت جیسے شرعی احکامات کی خلاف ورزی کا حق نہیں ہے" جبکہ اس کے مقابلے میں امام خمینی، شریعت کے ابتدائی احکام کی معطلی کو  حتی  عبادت کے باب میں بھی مصلحت کے تحت حکومت کے اختیاری حدود میں سے قرار دیتے ہیں اور اسی خط کے ضمن میں "ولایت مطلقہ" کے بارے میں بھی اشارہ کیا ہے۔

(ماخذ: صحیفه امام، ج‏20، ص452)؛ (امام خمینی(رہ) آیت الله ہاشمی رفسنجانی کی زبانی، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ص159)

البتہ امام خمینی « مطلقه » کے مفہوم کو شریعت کے ابتدائی احکام میں عوام کے خلاف بغیر کسی قید و شرط کے اعمال اور نفاذ کے معنی میں نہیں لیتے، نیز  مصلحت کو ذاتی سلیقے سے عاری سمجھتے ہوئے اسے عرفی اور جمہوری مصلحت سے مشروط جانتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود " ولایت " کو بھی مصلحت پر منحصر سمجھتے ہیں۔

اختلافات کے شدید ہوتے ہی امام خمینی اپنے تشویش کا اظہار بعض مذہبی ناقدوں کی جانب سے انجام دئے جانے والے مظاہرے کی صورت میں پیش کرتے ہیں جبکہ اس سے پہلے اراکین پارلیمنٹ کی آدھی تعداد کو کافی سمجھتے تھے مگر اس تنازعے کے بعد ارکان پارلیمنٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ مصلحت پر مشتمل مسودوں کو قانونی شکل دینے کےلئے، دو تہائی کی اکثریت کو لازمی قرار دیا جائے۔

ہمارے عظیم دینی اور قومی عیدوں میں سے ۱۲ فروردین " روز جمہوری اسلامی ایران " ہے؛ اس روز، طاغوتی حکومت سرنگوں اور مستضعفین کی حکومت جو اللہ کی حاکمیت ہے، قائم کر دی گئی۔

امام خمینی، اس سے پہلے شورائے نگہبان کے اراکین کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " میں یہاں شورائے نگهبان کے محترم اراکین کو یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی مشکلات میں گرفتار ہونے سے پہلے ملکی نظام کی مصلحت پر غور کریں کیونکہ آج کے پر آشوب دور میں ایک اہم مسئلہ ۔ کہ جس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ یہ ہےکہ اجتہاد اور مختلف نوعیت کے فیصلوں میں زمان اور مکان کی اہمیت کو نظر انداز نہ کیا جائے ... یہ نظریاتی حدود کے دائرے میں ہونے والے مباحث اور تبصرے جو حوزات علمیہ میں انجام پاتے ہیں، نہ صرف قابل حل نہیں بلکہ یہ مشکلات میں اضافے کے ساتھ، آئین کی واضح خلاف ورزی پر منتج ہوتے ہیں۔

(صحیفه امام، ج‏21، ص218)

ہاشمی اپنی کتاب " امام خمینی، آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کی زبانی " میں امام خمینی کے  جدید احکام اور فتووں کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو دیگر مراجع کے برخلاف ہیں۔

امام خمینی کی طرح ہاشمی بھی اس بات کے معتقد ہیں کہ پارلیمنٹ کی جانب سے شریعت کے ابتدائی احکام کے تعطل اور احکام ثانوی کے نفاذ کی ضرورت سے پہلے " ولی فقیہ " سمیت شورائے نگهبان میں موجود فقہاء، جدید ابتدائی احکام جو مصلحت کے حامل ہونے کے ساتھ وقت اور جگہ کے حالات کے مطابق بھی ہیں، کو پارلیمنٹ میں پیش کریں۔

ہاشمی جدید فتووں سے متعلق امام خمینی کے نظرئے کی تعریف کرتے ہوئے اسے " ولایت فقیه " اور شورائے نگهبان میں موجود تمام فقہاء کی سب سے اہم اور نمایاں کارکردگی تصور کرتے ہیں۔

اسی تسلسل میں حجت الاسلام والمسلین سید احمد خمینی سمیت چار رہنماؤں کی جانب سے  امام خمینی کے نام ایک اور خط تحریر کیا جاتا ہے جس میں یہ بات مندرج کی جاتی ہےکہ قوانین کی منظوری اور حکومت کی پالیسی کو سرکاری وزارتوں سے لیکر حکومت اور پارلیمنٹ تک ان اداروں کی تحقیقاتی کمیشن کی وضاحت کے باوجود کارشناسی مراحل سے گزارا جائے اور اس ضمن میں تشخیص مصلحت نظام کونسل کے قیام کےلئے جد و جہد کیا جائے۔

جب آیت الله ہاشمی سے ہماری گفتگو یہاں تک پہنچی تو میں نے ان سے سوال کیا کہ اس خط کو تنظیم کرنے والا کون تھا؟ تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس خط کو تحریر اور تنظیم کرنے والے وہ خود ہی تھے۔

میں نے ان سے دریافت کیا کہ اس خط میں بیان کئے گئے تمام مراحل کے باوجود اسی خط کے جواب میں تشخیص مصلحت نظام کونسل کے پہلے حکم نامے میں، امام خمینی کی پہلی تجویز اس طرح کیوں ہے؟ میری نظر میں ماہرین فن جو اس معاملے میں مرجع اور ریفرنس کی حیثیت رکھتے ہیں، کی جانب سے اقدامات کے بعد اس اقدام کی ضرورت باقی نہیں رہتی ...

انہوں جماران سے گفتگو کے دوران کہا: " امام احتیاط سے کام لیتے تھے"، تاہم ہاشمی نے میرے اصرار پر غیر رسمی بات چیت کے دوران واضح کیا: " امام خمینی پارلیمنٹ کو ہی کافی سمجھتے تھے"۔

یہ ایسا خاص راز تھا جس کے بارے میں ہاشمی نے کبھی قوم کے سامنے وضاحت پیش نہیں کی اور یہ کہ امام خمینی مصلحت کو ایک عرفی اور جمہوری مفہوم سمجھتے تھے۔

میں نے گفتگو کے دوران ان سے دریافت کیا کہ آیت الله العظمی گلپائیگانی کے خط کے جواب میں امام خمینی کے جواب کو کہ جس میں صراحت کے ساتھ اراکین پارلیمنٹ کو عرف کے نمائندے کے طور معرفی کیا گیا تھا، آئین کے مسودے پر نظر ثانی کے دوران کیوں پیش نہیں کیا گیا؟ تاکہ امام خمینی کے وہی پہلے نقطہ نظر کو انتخاب کیا جاتا جس کے نتیجے میں اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت، تمام  معاملات کےلئے کارگشا ثابت ہوتی؟

ہاشمی نے جواب میں کہا: وہ اس بات کو قبول نہیں کرتے تھے!!

یہاں جو بات اہم ہے وہ یہ ہےکہ  امام کی سیاسی فقہ کی منطق میں عرف اور اس کے اختیارات، جمہوریت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہاشمی بھی اگرچہ مصلحت کو امام خمینی کی طرح عرفی مفہوم سمجھتے تھے تاہم میرے خیال میں، امام خمینی کی نظر میں عرف اور مصلحت کے درمیان قائم رابطے کا جمہوریت کےلئے بہترین زمینہ ہونے کے سلسلے میں ان کا اپنا کوئی الگ موقف نہیں تھا۔

آیت الله ہاشمی رفسنجانی کو آغاز ہی سے مصلحت اور عرف اور شرع کے درمیان تعلقات کے حوالے سے ناکام مصلحتوں کا سامنا رہا جو ان کی نامکمل پالیسی اور سیاست کی طرح اسے جاری رکھنے کی ضرورت ہے ... جو ایران کے سیاسی نظام کی قانونی تشکیل کو سمجھنے میں اسٹریٹجک اور فیصلہ کن مسئلے کی حیثیت رکھتی ہے۔

مقالہ نگار: امین کریم الدینی / 9 جنوری 2017ء

ای میل کریں