امام انتہائی توانااور مقتدرتھے اور عوام بھی امام (رح) کو دل وجان سے مانتی تھی

امام انتہائی توانااور مقتدرتھے اور عوام بھی امام (رح) کو دل وجان سے مانتی تھی

ان حالات میں ہم نے استعمار کے دامان میں پناہ نہیں لی کہ آؤ اور ہمیں بچاؤ ۔امام پر مضبوط اور گہرااعتماد ہونے کی بناپر مختلف فورس،تنظیمں اورمخلص جوان میدان میں آگئے اورہم خودحالات کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوگئے ؛جبکہ آج بھی یہی سنگین مشکل دیگر ممالک کے سامنے ہے ۔

ایسناکی روپوٹ کے مطابق: مجمع تشخیص مصلحت ِنظام کے صدر آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی  نے ایسنا کو اینٹرویو دیتے ہوئے فر مایا: 50سال پہلے یا اس سے کچھ سال پہلے ،ہماری مصیبت و مشکل عالمی ظالم طاقتیں اورسامراج تھی ۔ ان دو نے عالمی سطح پرحالات میں کچھ تبدیلیاں پیدا کرکے ایک سخت افراطی،انتہاپسند گروہ اور تحریک کی بنیادرکھی جو افغانستان میں طالبان سے شروع ہوا جن کی فکر اور سوچ وہابی تھی؛سعودی عربستان ایک وہابی مملکت اور ان کامرکز ہے ۔ آج ہمارے اور اسلامی ممالک کے سامنے تین بینادی پریشانی اور مشکل ہے جس سے نمیٹنا ان ملکوں کے لئے جہاں عوام موجودہ حکومت کے خلاف بغاوت کرتی ہے انتہائی مشکل ہوچکی ہے ۔ افراطی اورانتہا پسند عناصر اور تحریکیں ملک کے حالات کو اس طرح اور اس حدتک بگاڑدیتے ہیں کہ عوام پھر سے پہلی حکومت کی پناہ لینے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔

لیکن ایران کا انقلاب اسلامی امام (رح) کی مضبوط اقتدارکی خاطراور اس لئے کہ آپ کی ہربات اورہر جملہ عوام کے لئے قرآن کی آیت کی مانند تھی؛ممتازاورخاص رہا۔ اگر امام راحل نہیں ہوتے،ہم بھی بعض اسلامی ممالک میں رونما ہونے انقلابات کے نتیجہ میں پیداہونے والی صورتِ حال میں سے دوچار ہوتے ۔یعنی جیسے ہی انقلاب کامیاب ہوگیا تمام وہ گروہ جن کے پاس ہتھیارتھا اور جیل میں قیدتھے آزاد ہوگئے اور جیلوں سے باہر آگئے اپنی خاص تنظیموں اور پروگرام کے تحت تھانوں اور اسلحہ خانوں کو لوٹ لیا اور سب کے سب نے ہتھیار اُٹھالیا اور کردستان ،ترکمن صحرا ،بلو چستان اور خوزستان میں خودمختاری کا نعرہ لگانا شروع کیا اور آگے چل کریہ نعرہ آذربایجان تک پہنچنے والا تھا۔لیکن کیونکہ امام انتہائی بااقتدار اور توانا تھے اور لوگ بھی امام(رح) کو مانتے تھے ،انقلابی جوان امام (رح )کے سایہ میں جمع ہوئے اور صرف ایک سال کے عرصہ میں ان تمام تحریکوں اور افراطی عناصر کو میدان سے باہر کیا اور ملک کو تقسیم ہونے سے بچالیا۔

ان حالات میں ہم نے استعمار کے دامان میں پناہ نہیں لی کہ آؤ اور ہمیں بچاؤ ۔امام پر مضبوط اور گہرااعتماد ہونے کی بناپر مختلف فورس،تنظیمں اورمخلص جوان میدان میں آگئے اورہم خودحالات کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوگئے ؛جبکہ آج بھی یہی سنگین مشکل دیگر ممالک کے سامنے ہے ۔

لیکن ان حالات اور واقعات کی اصل جڑکیا ہے ؟

ان حالات اور واقعات کی جڑ سات ،آٹھ صدی پہلی کی طر ف لوٹتی ہے ۔ابن تیمیہ نامی ایک شخص ایسے افکار و نظریات کےمالک تھا کہ جس کی تحت وہ تمام شیعوں کومشرک،کافر، مرتداورمہدور الدم جانتاتھا،وہ اپنے دور میں زیادہ کامیاب نہیں ہوا ۔بعد میں محمد بن عبدالوہاب نےجو خوداصل میں ایک سُنی عالم دین تھا اُسی کی مشن اور تحریک کو آگےبڑھایا اور اس کے مریدوں نے وھابی فرقہ کی بیناد رکھی؛ابھی جوکچھ داعش کررہاہے وہ وہابی فرقہ بھی کرتا تھا ۔ وہ واپس عراق آئے اور مقدس مقامات اور ائمہ(ع)کے حرم کو تباہ کیا اور لوگوں کو قتل عام کیااورواپس چلے گئے۔

  خود عربستان میں بھی ائمہ (ع) کےزمانےسے جو آثاراورنشانیاں بچی کچھی تھی ،ان سب کو تباہ کیا یہاں تک رسول اعظم (ص) کی قبرمبارک اور آب (ص)کی مسجد کو خراب کیا، قبرستان بقیع کے مزارات کو تباہ کیا ۔ اُس وقت بقیع میں،مزار تھا ۔ آج بھی یہ کے افکار ونظریات سعودی حکومت میں ہیں ۔ ابتداء میں ان افکارکوحضرت علی (ع) کے دور میں خوارج نے اٹھایا ۔ خوارج بھی ایسے تھے ۔ لیکن وہ آج کی طرح اس حدتک نہیں تھے ۔ انہی افکار کے ساتھ انھوں نے حضرت ِعلی (ع) کے ساتھ جنگ کیا اور معاویہ کے بھی مخالف تھے ۔

آج ہم القاعدہ،داعش ،بوکو حرام اور النصرہ نامی بلاؤں میں گرفتار ہیں،ان سب کی جڑ القاعدہ ہے ۔ آپ یقین کریں وہ استعماری طاقتیں جو یہ نہیں چاہتی کہ عالم اسلا م متحد ہو اور دنیا کی ایک چھوتائی آبادی ایک پرچم تلے رہیں ،وہی سامراجی عناصر اور تحریکیں عالم اسلام میں امن و سکون اوراتحادبرقرار نہیں ہونے دیتی ہیں ،کیوں کہ انھیں مکتب ِاسلام کی خوبیاں،اچھائیاں اور عالی انسانی اقدار سےخوف و دڑہے ؛لہٰذا ہم پر ان سے نمیٹنے کی سنگین،دشوار اوربڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔

ای میل کریں