خشونت اور بربریت کے مقابلہ میں اسلام کی نرم دلی اور محبت

خشونت اور بربریت کے مقابلہ میں اسلام کی نرم دلی اور محبت

یادگار امام(رہ) حجت الاسلام والمسلمین جناب سید حسن خمینی، اساتذہ اور محققین کی موجودگی میں ایک علمی نشست منعقد ہوئی، جس میں مختلف موضوعات منجملہ بعض دہشتگرد ٹولیوں جیسے داعش اور ان کے افکار ونظریات کا تحقیقی جائزہ لیا گیا۔

دنیائے اسلام میں بعض افراطی گروہوں جیسے داعش کی کارکردگی پر تحقیقی گفتگو سے متعلق ایک علمی نشست امام خمینی(رہ) اور انقلاب اسلامی تحقیقاتی سینٹر میں منعقد ہوئی۔

مذکورہ نشست یونیورسٹی کے اساتذہ، محققین اور یادگار امام حجت الاسلام والمسلمین جناب سید حسن خمینی کی موجودگی میں منعقد ہوئی، جس میں مختلف موضوعات منجملہ بعض دہشتگرد ٹولیوں جیسے داعش اور ان کے افکار ونظریات کا تحقیقی جائزہ لیا گیا۔

مذکورہ پروگرام کے پہلے مقرر تهے، ڈاکٹر محمد علی مہتدی؛ موصوف نے کہا: امریکہ پہلے تو یہ چاہتا تها کہ لبنان پر حملہ کر کے اسے خاکستر میں تبدیل کردے اسی طرح اسرائیل نے ۳۳روزہ جنگ میں چاہا تها کہ حزب اللہ کو تین دن میں نیست ونابود کردے۔ اس اعتبار سے ان کا ارادہ تها کہ شام جیسے ملک کو بهی اپنے قبضہ میں لے کر اس کے نظام میں تبدیلی پیدا کردیں۔ اس اعتبار سے ان کے لئے ایران پر حملہ کرنا نہایت آسان ہو جاتا۔

ڈاکٹر محمد علی مہتدی نے اپنی گفتگو آگے بڑهاتے ہوئے حزب اللہ واسرائیل کی جنگ میں جناب سید حسن نصر اللہ کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے انہیں قومی مرد اور دنیائے عرب کا ہیرو قرار دیتے ہوئے اضافہ کیا: اس کامیابی نے امریکہ، اسرائیل اور ان سے وابستہ ممالک کو خوف وہراس میں مبتلا کردیا تها۔ اُس وقت، موساد کے رئیس نے یہ بیان دیا تها کہ ہمارا مقابلہ ایک ایسے زلزلہ سے ہے جس سے بچنے کا واحد راستہ حزب اللہ کے مقابلہ میں ایک افراطی سنی گروہ اور ٹولی کو وجود بخشنا ہے۔ اسی دور میں کانڈولیزا رائس نے بهی مصر کا سفر کیا تها اور اس سفر میں وہاں کے فارنر منسٹر سے ملنے کے بجائے مصر کی خفیہ ایجنسی نیز دیگر پانچ عربی ممالک میں ملاقاتیں انجام دی تهیں۔ داعش کی وہیں داغ بیل ڈالی گئی۔ اگر چہ القاعدہ پہلے سے ہی موجود تهی لیکن یہ نئی ٹولی اس لئے بنائی گئی تا کہ کنٹرول کیا جا سکے اور اس کا اصل مقصد بهی شیعوں سے مقابلہ تها۔

موصوف نے اپنی تقریر میں اضافہ کیا: داعش کے اعضاء واراکین کی تعداد ۳۰ سے۵۰ ہزار پر مشتمل ہے۔ ساته ہی آپ نے کہا کہ ان میں سے حداقل آدهے افراد خود عراق اور شام کے علاوہ دیگر ممالک، جیسے جیسے کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ سے آئے ہیں۔ تیل کے ذخائر پر قبضہ پانے سے پہلے اس ٹولی کے تمام اخراجات سعودی عرب اور جارڈن جیسے ممالک سے پورے ہوتے تهے۔

ڈاکٹر مہتدی نے اپنی گفتگو کا اختتام ان کلمات پر کیا: یہ تو طے ہے کہ داعش جیسے گروہ کو بنانے والے مغربی ممالک اور اسرائیل ہیں اور اس کا مقصد شیعیت کو نقصان پہنچانا ہے اسی طرح ایران کے بڑهتے قدم ان کی آنکهوں میں تنکا بنے ہوئے تهے جسے یہ روکنا چاہتے تهے۔ لیکن یہ یاد رکهنا چاہئے کہ جسے خود ہمارے خلاف استعمال کرنے کے لئے وجود میں لایا گیا ہے جب خود تمہارے خلاف یہ زہر اُگلیں گے تمہیں ان سے بچنا بہت دشوار ہوگا۔

اس نشست کے دوسرے مقرر تهے، اسلامی افکار ریسرچ سینٹر کے مدیر ڈاکٹر احمد نثاری، موصوف نے تکفیری ٹولیوں کے افکار کا جائزہ لیتے ہوئے اس سوال سے اپنی گفتگو شروع کی: کیا ان تکفیری ٹولیوں کے لئے ماضی میں فکری واعتقادی جڑیں پائی جاتی تهیں یا نہ؟ آپ نے کہا: میرے اعتبار سے اس کا ماضی سے کوئی ربط نہیں پایا جاتا ہے اور جب کبهی بهی اس گروہ نے سر اٹهایا ہے اس کا کوئی تاریخی پس منظر نہیں رہا ہے، یہ دین واسلام سے عاری گروہ ہے۔ یہ بات بهی قابل ذکر ہے کہ اس قسم کی ٹولیاں صرف اسلام سے مخصوص نہیں ہیں۔

ڈاکٹر نثاری نے تکفیری ٹولیوں کے وجود میں آنے کے دو اسباب کا ذکر کرتے ہوئے اضافہ کیا: پہلا سبب جہالت اور دین کی تعلیمات سے غلط آشنائی ہے جو عموماً عوام سے حاصل ہوتی ہے۔ اور دوسری اہم علت خواص کا تسلیم ہونا ہے۔

آپ نے تاریخ اسلام میں تکفیری ٹولیوں کی بعض کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا: اسلام میں تکفیریوں کا پہلا نمونہ خوارج کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اس گروہ کے معرض وجود میں آنے کے اسباب میں سرفہرست آل عبا علیہم السلام کو نظر انداز کرنا ہے اسی طرح بنی امیہ کی جانب سے پیدا ہونے والی عیاری ومکاری اور خواص کو جهوٹے وعدے دیتے رہنا۔

تکفیر کا دوسرا نمونہ، حادثہ عاشورا میں نظر آتا ہے۔ قاضی شریح کی جانب سے امام حسین علیہ السلام کی تکفیر پر مشتمل فتوی بهی اسی کی ایک کڑی ہیں جہاں ہم دو اہم اسباب سے روبرو ہوتے ہیں: پہلے تو بنو امیہ کے پروپگنڈے اور امام(ع) کی اتباع میں شک وتردید کی ایجاد اور دوسرے شریح کی خواص کے ساته کی جانے والی خیانت۔

اس نشست کے آخری مقرر تهے، ڈاکٹر محمد یزدان فام، ڈاکٹر فام نے ان دنوں میڈل ایسٹ کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اس علاقہ میں چند طاقتیں موجود ہیں جن میں ایران سرفہرست ہے۔ دوسری طاقت، سعودی عرب اور وہ ممالک ہیں جہاں پادشاہی نظام حاکم ہے۔ اگر چہ ان میں آپسی اختلافات کم نہیں لیکن منافع مشترک ہیں، اور ایک قدرت، ترکی ہے، ایک دوسری طاقت صہیونی حکومت ہے۔ جن پر توجہ کئے بغیر میڈل ایسٹ کی مشکلات کا جائزہ لینا یقیناً دشوار کام ہے۔

موصوف نے اضافہ کیا: سعودی عرب اور ترکی کے رؤسا نے کچه عرصہ قبل خود سے یہ سوال کیا تها کہ اگر چہ ہم سنی نشین علاقوں میں رہتے ہیں اس کے باوجود ایران جیسی قدرت ہمارے اختیار میں کیوں نہیں ہے؟ یہ اس نتیجہ پر پہنچے تهے کہ ایران کے پاس حزب اللہ موجود ہے۔ لہذا آپسی گفتگو کے نتیجہ میں انہوں نے بهی حزب اللہ جیسی ایک حزب بنانے کی سوچی! طے پایا کہ یہ قدرتمند حزب ان کے لئے شام میں بشار اسد کے بعد کی حکومت ہو لیکن تمام مشکلات اس وقت پیدا ہوئیں جب بشار اسد کی حکومت نے استحکام پایا۔ اسی اثنا میں القاعدہ کے رئیس شیخ زرقاوی نے یہ اعلان کیا کہ علاقہ میں شیعہ سنی جنگ چهیڑ دی جائے تا کہ ایران کا نفوذ کم سے کمتر ہوجائے لیکن نجف اشرف میں آیۃ اللہ سیستانی کی مرجعیت نے انہیں اس مشن میں کامیاب ہونے سے روک دیا۔

آپ نے اپنی تقریر میں اضافہ کیا کہ ہمیں خشونت، ظلم اور بربریت کے مقابلہ میں اسلام کی رحمانیت، نرم خوئی ونرم دلی اور پیغام محبت کو رائج کرنا چاہئے۔ اگر شیعہ وسنی اور اسلام وکفر کے اختلافات چهیڑے اور مورد بحث قرار پائیں تو اس سے ہمیں ہی نقصان اٹهانا پڑے گا لیکن اگر بحث کا محور خشونت اور رحمانیت قرار پائے تو اس سے ضرر تکفیری ٹولیوں کو ہی پہنچے گا۔ جس کے نتیجہ میں وہ حاشیہ میں چلے جائیں گے۔ پهر اس کے بعد سعودی اور ترکی کی حمایت انہیں نصیب نہ ہوگی۔ میرے اعتبار سے یہ زاویہ فکر عراق میں ہمارے سرمایہ کی بربادی میں مانع قرار پا سکتا ہے۔

ڈاکٹر یزدان نے اپنی گفتگو ان کلمات پرختم کی: داعش کے سبب امریکہ دوبارہ ہمارے علاقہ میں اپنا پیر جمانے میں کامیاب ہوا چاہتے ہیں۔ داعش کے آتے  ہی اسرائیل امنیت پیدا کر گیا کیونکہ ایک مدت سے مڈل ایسٹ میں تمام تر مباحث کا محور اسرائیل تها۔ اس تکفیری ٹولے کے پیدا ہوتے ہی عراق میں ہمارے پروڈکٹس کے اکسپورٹ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ہمیں اپنی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا۔ اگر یہ گروہ آج ہی محو ہو جائے تو کل یقیناً ہمارے حق میں بہتر ہوگا۔

اس سمینار کے اختتام پر ڈاکٹر سید صدر الدین موسوی (امام خمینی(رہ) ریسرچ سنٹر کے عضو) نے مطالب کی جمعبندی بطور خلاصہ حاضرین کے لئے بیان فرمائی۔

 

جماران نیوزایجنسی

ای میل کریں