انقلاب اسلامی کے بدولت، امریکہ خطے میں اپنے عزائم و مقاصد میں کامیابی حاصل نہیں کر پایا۔
اسلامی دنیا میں اس وقت اگر کوئی ملک امریکہ کے استعماری ایجنڈے کے سامنے حقیقی معنوں میں قیام پذیر ہے تو بلاشبہ، وہ ایران ہے۔ اس کا ایک ہلکا سا شائبہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجنونانہ اعلانات و اقدامات کے ردعمل کی صورت میں بھی ملتا ہے۔
نومنتخب امریکی صدر نے سات اسلامی ممالک کے شہریوں پر نہ صرف امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی ہے، بلکہ دیگر مسلمان ممالک بشمول پاکستان کے شہریوں کیلئے امیگریشن قوانین بھی انتہائی سخت کر دیئے۔
امریکی صدر نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ ایران کے ساتھ گذشتہ برس، چھ بڑی طاقتوں کے ہونے والے معاہدے کو منسوخ کرنے کی بھی دھمکی دے ڈالی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو مجھ سے ڈرنا چاہیئے اور امریکی صدر اوباما کا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ اس نے ایران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
نئے امریکی صدر کے ان غیر عاقلانہ اقدامات و بیانات پر چند مسلمان ممالک کے امریکی تابعدار حکمرانوں نے نہ صرف واہ واہ کے ڈونگرے برسائے بلکہ اپنی خوشامدانہ اور جی حضوری کی سرشت سے مجبور ہوکر مزید سخت اقدامات کی تجویز پیش کی۔
ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ٹرمپ امریکی پالیسی میں تبدیلی نہیں لائے بلکہ امریکی پالیسیوں کو بے نقاب کیا ہے۔
حال ہی میں امریکی امیگریشن حکام کی جانب سے ایک 5 سالہ ایرانی بچے کو ہتھکڑیاں پہنانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکی حقوق انسانی کیا ہیں، اب دنیا پر واضح ہوگیا، اللہ تعالٰی حضرت امام خمینی کو غریق رحمت کرے، وہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں بار بار امریکی چال بازیوں اور شیطنت کی طرف لوگوں کو متوجہ کراتے رہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کو کسی بھی صورت میں امریکہ پر بھروسہ کرنے سے منع کیا اور آج امام راحل کی تمام فرمائشات سب پر واضح ہوگئیں ہیں۔
انقلاب ایران کے سپریم لیڈر کا یہ خطاب ایک مضبوط اور طاقتور ایران کی نشاندہی کرتا ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہےکہ برسوں سے اقتصادی، دفاعی پابندیوں کا شکار رہنے والے ملک ایران کے پاس ایسی کون سی قوت ہے، جو کہ ہمہ وقت اسے استعماری ایجنڈے و پالیسیوں کے خلاف قیام پر آمادہ رکھتی ہے تو وہ قوت ماسوائے انقلاب اسلامی کے کچھ اور نہیں۔
11 فروری 1979ء میں ایران میں برپا ہونے والے عوامی اور اسلامی انقلاب نے اس وقت کے "امریکی پولیس مین" رضا شاہ پہلوی کے اقتدار کا تختہ الٹ کر خطے میں امریکی مفادات و اثر و رسوخ پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ 38 سال بعد تمام تر قوت و حربے استعمال کرنے کے باوجود امریکہ خطے میں اپنے عزائم و مقاصد میں کامیابی حاصل نہیں کر پایا۔
مسلمان ملکوں میں آج ایران کو اگر بہت زیادہ اہمیت و حیثیت حاصل ہے اور اسے ہر لحاظ سے مضبوط و کامیاب سمجھا جا رہا ہے، تو اس میں بنیادی دخل انقلاب اسلامی کا ہے۔
حقیقت یہ ہےکہ انقلاب اسلامی نے نہ صرف ایران بلکہ دیگر مسلمان ملکوں کی نظریاتی، دفاعی، معاشی، ثقافتی سرحدوں کی بھی حفاظت کی ہے۔ انقلاب اسلامی سے قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایران کے سامنے دنیا کی بڑی طاقتیں سرنگوں ہوں گی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تمام تر مخالفت، سازشوں کے باجود انقلاب کے 38 سال بعد موجودہ ایران جو تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے؛ اقتصاد، معیشت، تعلیم، طب، دفاع، ثقافت، زبان الغرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا لوہا منوا رہا ہے؛ یہاں تک کہ اسے ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کیلئے دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کو ملکر اسی ایران سے معاہدہ کرنا پڑا۔
یقینی طور پر استعماری طاقتیں ایران کے ایٹم، میزائل سے خوفزدہ نہیں بلکہ خوف زدہ ہیں تو صرف اور صرف نظام انقلاب سے، ان تحریکوں سے جو انقلاب سے متصل ہیں، ان نظریات سے جو امام خمینی نے اہل اسلام کے جوانوں کے سینوں میں پھونک دیئے۔ اس فکر سے کہ جو کسی دنیاوی طاقت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتی۔ وہ فکر جو دنیا کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے شہریوں کو بڑی طاقتوں کے سامنے قیام پر آمادہ کرتی ہے، وہی اسلامی فکر جو ایران میں عوامی انقلاب کا باعث بنی۔ پوری دنیا کے وہ انسان جو بنیادی حقوق سے محروم ہیں، مستضعف ہیں، لاچار ہیں، ظالم جابر حکمرانوں کے پنجہ استبداد میں جکڑے ہوئے ہیں، ان سب کو صرف انقلاب کے زیر سایہ نظام سے امیدیں وابستہ ہیں۔ بلاشبہ اگر صحیح معنوں میں انقلاب اسلامی کا مطالعہ کیا جائے تو خط امام خمینی، انقلاب اسلامی میں پوری امت مسلمہ کو درپیش مسائل اور چیلنجز کا حل مضمر ہے۔