امام، اس مرد خدا نے فرمایا: خرم شہر کو خدا نے آزاد کیا

امام، اس مرد خدا نے فرمایا: خرم شہر کو خدا نے آزاد کیا

حضرت آیت اللہ خامنہ ای: امام بزرگوار، اس مرد خدا اور حقیقی حکیم الہی نے فرمایا تھا کہ خرم شہر کو خدا نے آزاد کیا ہے۔

تین خرداد، خرم شہر کی آزادی کے عظیم دن کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کی موجودگی میں امام حسین[ع] یونیورسٹی میں کیڈٹس کی پاسنگ آوٹ پریڈ کی تقریبات کا آغاز ہوا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے پہلے گمنام شہداء کے مزار پر فاتحہ خوانی کی اور خداوند متعال سے تمام شہداء کی بلندی درجات کےلئے دعا کی اور پھر آپ نے میدان میں موجود جانبازوں منجملہ چند جانباز مدافعین حرم اور چند شہیدوں کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس تقریب میں اپنی اہم گفتگو کے دوران استقامت اور استکباری محاذ کی پیروی نہ کرنے کو قرآنی اور اسلامی منطق یعنی عظیم جہاد کا معنی قرار دیا۔

آپ نے فرمایا: اس وقت " انقلابی نعروں اور مفاہیم کی گہرائی اور عمق کو بیان کرنے اور ان کا پرچار کرنے کےلئے سنجیدہ اقدامات"، " سطحی اقدامات سے پرہیز"، " مستقبل کےلئے افرادی قوت تیار کرنے" اور" انقلاب کے گذشتہ سینتیس سالوں کے حیرت انگیز اور غنی علمی تجربات کی تدوین" یونیورسٹیوں، مدرسوں، مومن اور انقلابی افراد اور جوانوں، اسی طرح سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی اہم ذمہ داریاں ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تین خرداد کو خرم شہر کی فتح پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس دن کو انقلاب کی تاریخ میں یادگار دنوں میں سے ایک دن قرار دیا اور اسے قدرت الہی کا مظہر قرار دیتے ہوئے فرمایا: امام بزرگوار، اس مرد خدا اور حقیقی حکیم الہی نے فرمایا تھا کہ خرم شہر کو خدا نے آزاد کیا ہے۔
رہبر معظم نے فرمایا: استکبار کے زیر قبضہ موجود پوری دنیا اور فلسطین کی آزادی کے امکانات موجود ہیں اور اس بات کا امکان بھی موجود ہےکہ پوری دنیا میں کوئی قوم بھی مستضعف نہ ہو۔ جو قوم اس منطق یا نظریئے کی حامل ہو اور اپنی پوری جد وجہد اور کوششیں کرے اور خدا پر توکل کرے، وہ کبھی بھی بڑی طاقتوں کی فوجی، مالی، تشہیراتی اور سیاسی طاقت سے مرعوب نہیں ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے گذشتہ سینتیس سالوں کے دوران اسلامی انقلاب کو شکست دینے کےلئے استکباری محاذ کی کوششوں اور ان کی مختلف سازشوں اور منصوبہ بندیوں کی ناکامی کو جد وجہد اور خدا پر توکل کے ساتھ استقامت کے نظریئے کی پیروی قرار دیا اور فرمایا:

ملت ایران اسی طرح میدان میں موجود ہے اور جوانوں کی ایک بڑی تعداد حاضر ہے کہ اپنی جانیں انقلاب کی راہ میں فدا کردے اور یہ وہی چیز ہے جس نے خدائی طاقت و قدرت کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔
رہبر انقلاب نے ارادوں کی جنگوں کو زمینی جنگ سے زیادہ وسیع اور ایک طرح کے جہاد سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: آج ہمارے ملک کے خلاف کسی بھی طرح کی روایتی جنگ کے امکانات بہت کم ہیں لیکن جہاد کا موضوع باقی ہے اور یہ جہاد کہ جو قرآن اور اسلام کی منطق ہے یہ " عظیم جہاد" یعنی " استقامت، مزاحمت اور کفار و مشرکین کی پیروی نہ کرنے" کے معنی میں ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ یہ عظیم جہاد سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور ہنری میدانوں میں بھی موجود اور متجلی ہے، فرمایا: ان تمام میدانوں میں، کافروں اور مشرکوں کی پیروی کرنے کے بجائے ہمیں چاہئے کہ ہم  اسلام اور قرآن کے ایجنڈے کی اطاعت کریں۔
آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران اور استکبار کےلئے اہم مسئلہ پیروی کے موضوع کو قرار دیا اور فرمایا: ہمارے عوام مسلمان ہونے کی وجہ سے استکبار کی اطاعت کےلئے تیار نہیں ہیں۔ امریکی اس بات کی بہت زیادہ کوششیں کرتے ہیں کہ اپنی دشمنی کی اصل وجہ کو زبان پر نہ لائیں لیکن بعض اوقات ان کی گفتگو میں اس مسئلے کا راز فاش ہوجاتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے استقامت، دشمن کی اطاعت نہ کرنے اور اسلامی اور انقلابی شناخت کی حفاظت کو اسلامی نظام اور ایرانی عوام کے اقتدار کی اصل وجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: امریکہ اور دوسری طاقتیں، اس بات پر بہت زیادہ ناراض ہیں اور ان کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں ہے اسی لئے وہ بہت زیادہ کوششیں کررہے ہیں کہ شاید وہ اس ملک کے فیصلے کرنے والے اور ملک کے بارے میں لائحہ عمل تیار کرنے والے اداروں کو اپنی دسترس میں لے آئیں لیکن وہ یہ نہیں کرپائے اور خداوند متعال کی توفیقات کی وجہ سے وہ ایسا کر بھی نہیں پائیں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا: سپاہ کی اصلی ذمہ داری انقلاب کی پاسداری ہے، بنابرایں عظیم جہاد، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے منصوبوں میں اولویت کا حامل ہونا چاہئے۔
آپ نے فرمایا: ہم کبھی بھی دنیا سے تعلقات منقطع کرنے اور اپنے گرد حصار کھینچنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے رابطے سیاسی اور اقتصادی مبادلے کے حامل ہونے چاہئیں، لیکن اپنی شخصیت اور اصل شناخت کو نہ بھولیں اور جب آپ بات کرنا چاہیں یا معاہدہ کرنا چاہیں تو اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندے بن کر گفتگو کریں اور معاہدے کی میز پر بیٹھیں اور ہوشیاری کے ساتھ اقدامات کریں۔
آج دشمن، اسلامی نظام پر کاری ضرب لگانے کے بارے میں مایوس ہوچکا ہے لیکن وہ مختلف پیچیدہ طریقوں سے اثر و رسوخ کے درپے ہے تاکہ ایرانی جوانوں کی شناخت کو امریکہ اور استکبار کی پسندیدہ شناخت میں تبدیل کردے کیونکہ اس طرح اسے اپنے اہداف اور اپنے منصوبوں کے اجرا میں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی نہ ہی اسے سرمایہ خرچ کرنا پڑےگا۔ ایسی صورتحال میں ملت ایران کے غم خواروں، اسلامی نظام منجملہ سپاہ پاسداران کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے انقلابی حقائق اور مفاہیم کے ادراک کےلئے جذبات اور احساسات کو ضروری مگر ناکافی قرار دیتے ہوئے فرمایا: اگر ان مسائل کو سنجیدہ اور عمیق انداز میں بیان کیا جائے تو یقینا عوام کا ان مفاہیم پر یقین کبھی بھی ختم نہیں ہوگا اور اس میں دائمی ثبات پیدا ہوجائےگا۔ انقلاب کے اصلی مسائل اور مفاہیم کے سلسلے میں فکر کی گہرائیوں میں جانا چاہئے اور صالح اساتذہ سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت پر گفتگو کرتے ہوئے بعض غیر منطقی اقدامات پر تنقید کی اور تاکید کے ساتھ فرمایا: بعض اوقات بعض افراد اور جوان کہ جو ممکن ہے کہ مومن اور صالح بھی ہوں، کسی ایک فرد یا ایک گفتگو کی مخالفت کی وجہ سے شور شرابہ کردیتے ہیں اور اس تقریب کو درہم برہم کردیتے ہیں، حالانکہ میں پہلے سے ہی ان کاموں کا مخالف ہوں جن کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے اور میرا یہ ماننا ہےکہ کام کو درست اور ہوشیاری سے انجام دینے اور انہیں گفتگو کرنے میں ہی فائدہ ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے اختتام پر قرآن سے زیادہ انسیت اور آیات الہی میں غور و فکر کئے جانے، نماز پر توجہ کئے جانے اور اسے حضور قلب کے ساتھ ادا کئے جانے، اور ماہ مبارک شعبان اور رمضان کے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کو خداوند متعال سے قلبی رابطے کو مستحکم کرنے کےلئے ضروری قرار دیا۔
اس تقریب میں میدان میں موجود فوجی یونٹوں نے سپریم لیڈر کے سامنے پریڈ کی۔

 

http://www.leader.ir/ur

ای میل کریں