انوار ولایت کنونشن

انوار ولایت کنونشن

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے تعاون اور اصغریہ آرگنائزیشن پاکستان کے اہتمام سے ’’انوار ولایت کنونشن‘‘ کا انعقاد

ابنا۔ اصغریہ آرگنائزیشن پاکستان کے زیر اہتمام ’’انوار ولایت کنونشن ‘‘ گذشتہ روز جمعہ کو اس ملک کے صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد میں شروع ہوا۔

یہ تین روزہ کنونشن جوکہ بھٹ شاہ علاقے میں شروع ہوا کل اتوار تک جاری رہا۔ کنونشن کے پہلے روز ۶۵۰ مردوں اور ۵۰۰ خواتین نے شرکت کی جبکہ آخری روز جو یوم فاطمہ زہرا(س) سے مخصوص ہے میں ۲۰۰۰ تک افراد کی شرکت متوقع ہے۔

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام و المسلمین اختری نے اس کنونشن کے لیے ایک خصوصی پیغام بھی جاری ارسال کیا ہے۔

پیغام کا ترجمہ حسب ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم

انا اعطینک الکوثر فصل لربک و انحر ان شانئک ہو الابتر

اصغریہ پاکستان کي مرکزی کابینہ ،محترم اراکین اور تمام محترم مہمان!

سب سے پہلے عظیم کنونشن انوار ولایت میں شریک آپ تمام افراد کو سلام عرض کرتا ہوں! اور حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ کی ولادت با سعادت کے ان ایام اور طبیعت میں بہار کی آمد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ یہ پورا کنونشن اور اس کی تمام نشستیں خداوند متعال کی رضایت اور اس کے ولی امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خوشنودی کے حصول کا سبب بنیں۔ اور اس کے علمی و عملی آثار پورے پاکستانی معاشرے کیلئے مفید واقع ہوں۔

 اصغریہ آرگنائزیشن کی خواہش کے مطابق اور کیونکہ یہ کنونشن حضرت فاطمہ الزہرا سے مخصوص ہے اور اس کے تیسرے روز کو یوم فاطمہ الزہرا کا نام دیا گیا ہے، اس مناسبت سے اسلام کی اس عظیم خاتون کی سیرت سے نمونہ عمل لینے کیلئے مختصر پیغام آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں۔ محترم دوستان اور بزرگان! شاید عمومی تصور یہ ہو کہ حضرت فاطمہ الزہرا(س) فقط جہان کی عورتوں کیلئے نمونہ عمل ہیں، فقط ہماری خواتین اور بیٹیوں کو ہی ان کی سیرت سے درس لینا چاہیے۔ حالانکہ بیبی نہ فقط دنیا بھر کے تمام عام مردوں اور عورتوں کیلئے بلکہ تمام مقربان اور منتخبان کیلئے بھی دائمی نمونہ عمل ہیں۔ اور ایسا کیوں کر نہ ہو جبکہ انسانی صورت میں یہ حور اس مقام پر فائز ہیں کہ ان کی خوشنودی اور غضب، اللہ کی خوشنودی اور غضب کا سبب ہے۔ افضل کائنات حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، ان سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: «ان اللهَ یرضی لرضاک و یغضب لغضبک؛ (۱) اللہ تمہارے راضی ہونے سے راضی اور تمہارے ناراض ہونے سے ناراض ہوتا ہے۔

 اور ایسا کیونکر نہ ہو جبکہ باب مدینہ العلم یعنی حضرت علی علیہ السلام ان علوم کے کاتب بنتے ہیں جو اللہ کے امین، اس محدثہ بیبی پر نازل کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اور آپ پر حجت یعنی قطب عالم امکان حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف فرماتے ہیں: «فی إبنَةِ رسُولِ اللهِ لِی أسوَةٌ حَسَنَة (۲)میرے لئے دختر رسول خدا میں نمونہ عمل ہے۔

کنونشن کے محترم شرکاء!

جب ہم نے جان لیا کہ اس معصومہ کو نمونہ عمل بنانا، ہمارے لئے خدا کی ایک نعمت ہے، تو اس مختصر فرصت میں ان کی زندگی کے پانج نمونوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں، جن سے درس لینا کسی خاص جنس، قوم، اور سن و سال کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔

 1۔ راہ خدا میں جہاد : حضرت فاطمہ الزہرا کی زندگی ولادت سے شہادت تک، صدر اسلام کے پر حادثات اور تارخ ساز دور کے ہمزمان تھی۔ مکہ کے سخت اور غربت کے سال اور پھر مدینہ کے جہاد اور جنگ کے سال آپ کا بچپنہ، نوجوانی اور جوانی لے گئے۔ لیکن وہ کبھی بھی آشفتہ نہیں ہوئیں، نہ فقط یہ کہ ایمان اور جہاد کی راہ سے جدا نہ ہوئیں بلکہ اپنے والد اور شوہر کی مددگار رہیں، جن کے کاندہوں پر آخری دین کیلئے تمدن سازی کا سنگین بار تھا۔

پھر جس طرح ان کے والد نے انہیں ام ابیھا کا لقب دیا، ان کے شوہر نے، جس نے اپنے وجود کو مقابلہ اور جہاد کیلئے وقف کر دیا تھا، ان کے صفات کو اس طرح بیان کیا فرمایا ہےَ: « نِعمَ العَونُ علی طاعةِ الله (3) اللہ کی اطاعت اور بندگی کیلئے میری بہترین مددگار ہیں۔

 2۔ اولاد کی بہترین تربیت : سب سے پہلی جگہ جہاں انسان ولادت سے روحانی اور جسمانی تربیت حاصل کرتا ہے، وہ گھر اور خاندان کا ماحول ہے، اس ماحول میں ماں باپ کا کردار مخصوصا ماں کا کردار بچوں کیلئے شخصیت ساز ہوتا ہے۔ اور ان کی تقدیر لکھتا ہے۔ پاک ولایت کے انوار اور آئمہ علیہم السلام کی سیرت میں دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بزرگان میں سے ہر ایک دقت، حساسیت اور ظرافت کے ساتھ بچوں کے تربیتی مسائل پر توجہ دیتے تھے۔ صدیقہ کبری حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا بھی بچوں کی تربیت کو بہت زیادہ اہمیت دیتی تھیں، سورہ انسان یا سورہ دہر کی شان نزول اس تربیت کا ایک اعلی نمونہ ہے۔ کس طرح ایک دن کی بھوک اور روزے کے بعد افطار کے وقت ایک صدا آتی ہے، اور ایک بھوکا کھانے کی درخواست کرتا ہے، جس کے بعد حضرت فاطمہ الزہرا اور ان کے شوہر حیدر کرار اپنا کھانا اس فقیر کو دے دیتے ہیں، ان کے فرزند جو ایسے ماں باپ کے پرورش یافتہ ہیں، وہ بھی دوسروں کو خود پر مقدم کرتے ہیں، اور اپنی روٹیاں فقیر کو دے دیتے ہیں، یہ عمل تین راتوں تک تکرار ہوتا رہا، اس تربیت اور اس ایثار کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے عظیم فرزند اپنے وجود کو انسانیت کی ترقی و کمال کیلئے قربان کردیتے ہیں۔ (۴)

3 ـ ولایت کا دفاع جان کے بدلے میں: پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ کی رحلت کے بعد نیا تشکیل دیا جانے والا اسلامی معاشرہ بہت کٹھن مرحلے سے دوچار ہو گیا، اور اِن شرایط میں لاکھوں مسلمانوں میں سے جنہوں نے خدا اور اس کے رسول کی حکم عدولی نہیں کی اور اپنے زمانے کے امام کے دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ان کی تعداد انگلیوں پر گننے جتنے بھی نہیں تھی. اور ان کی سالار حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تھیں جنہوں نے اس راہ میں اپنی اور اپنے بچے کی جان کو فدا کردیا اور آل عبا کی مظلومیت کی ندا کو تاریخ میں زندہ اور جاوید کردیا۔

 ـ گفتار میں استدلال اور تشدد سے پرہیز : اہلبیت اطہار کی سیرت میں دشمنوں کے ساتھ نشست و برخاست ہمارے لئے بہت ہی بہترین نمونہ عمل ہے. فاتح خیبر اور مالک ذوالفقار اگر اپنی ذاتی مفادات کو اسلام کے مصلحتوں سے آگے رکھتے تو اپنے طاقتور بازوؤں کی مدد سے اپنے حق کو لے سکتے تھے لیکن اس صورت میں اسلام کی جڑیں خشک ہوجاتیں جو کہ تازہ پھیلنے لگیں تھیں اور یہ سب داخلی اختلافات کے نظر ہو جاتا. یہاں پر حضرت صدیقہ کبری کی گفتگو من جملہ مسجد النبی میں مہاجرین اور انصار کو دیا جانے والا خطبہ اور مدینے کی خواتین کو دیا جانے والے خطبے نے وہ کام کیا کہ امامت اور نبوت کے لازم ملزومیت پر فراموشی کی خاک نہیں بیٹھنے دی. نبی کریم کے گھر کے آنگن کے پھول نے بغیر کسی متشددانہ رویہ کو اپنائے مخالفوں کے ساتھ ایسی منطقی اور مدلل گفتگو کی کہ گفت و شنید کے میدان میں انکو بالکل تنہا کردیا اور تاریخ میں شیعت کے لئے گفتگو کا ایک محکم منبع فراہم کردیا جو کہ رہتی دنیا تک تشیع کے لئے اپنے عقائد کے دفاع کا علمی ذخیرہ ہے ۔

5 ـمصیبتوں میں صبر: اتنی ساری مصیبتیں جو ایکدوسرے کے پیچھے آئیں، جنگوں میں پیغمبر اسلام کے عظیم اصحاب کا شہید ہوجانا، اشرف الخلق بابا کو کھو دینا اور بابا کی رحلت کے بعد آنے والے وہ اندوہناک واقعات جو کہ بھری جوانی میں بیبی پر آئے بہت سخت اور طاقت فرسا تھے. لیکن زندگی کا مقصد اگر رضاء خدا اور اسکے دین کی حفاظت ہو تو یہ سب درد خدا کی راہ میں صبر کرنے سے مداوا ہوتے ہیں. پس تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ ایسی ماں کی گود سے زینب کبری جیسی شیر دل خاتون پیدا ہو جو کہ صبر کو بھی تھکادے اور اسلام کی راہ میں آنے والی مصیبتوں کو نیک شگون قرار دے اور فرمائے

(ما رایت الا جمیلا

 اے حضرت فاطمہ زہرا کے شیعو اور محبو

اگر دنیا کے حالات حاضرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر مسلمان عہد کرے کہ یہ پانچ شخصی، خاندانی اور اجتماعی صفتیں یعنی خدا کی راہ میں کوشش، دیندار اور فداکار نسل کی پرورش، ولایت کا دفاع، منطقی گفتگو اور متشددانہ رویے سے دوری، اور مصائب اور آلام میں صبر کو اپنائے اور اپنے افکار کو ان کے مطابق منظم کرے تو ہم بہتر دنیا بنا سکتے ہیں. آپ کے مجروح اور مصیبت زدہ معاشرے کے لیے چوتھا عنصر بہت ہی ضروری اور فوری ہے۔

عظیم ملک پاکستان کے مسلمان بھائی جو کہ مختلف مذاہب اور عقیدوں کے پیروکار ہیں، کو چاہیے کہ ایکدوسرے کے ساتھ سرجوڑ کر بیٹھیں اور آپس میں غیر متشددانہ گفتگو رد و بدل کریں، اگرچہ مختلف مذاہب کے رہنما اس گفتگو کے لئے سزاوار ہیں لیکن پھر بھی یہ کام فقط ان کے لئے مخصوص نہیں بلکہ اساتید، جوان اور اسٹوڈنٹس وغیرہ ایسی گفت وشنید کا اہتمام کریں۔

آخر میں اپنے پر یہ فریضہ سمجھتا ہوں کہ اس مہم کنوینشن کے اہتمام پر اصغریہ پاکستان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کروں. آپ کی تنظیم جو کہ اسلامی معاشرے میں علمی آگاہی اور عقیدتی بنیادوں کو مضبوط بنانے میں پیش قدم ہے ان شاء اللہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور ان کے فرزندوں کی راستے کو طے کر رہی ہے. اور ان شاء اللہ آپ تمام کارکنوں مخصوصا تنظیم کے امين عام  حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ حیدر علی جوادی اور اصغریہ پاکستان کے صدر استاد فضل حسین اصغری سے حضرت زہرا اور انکی اولاد راضی اور خوشنود ہوں۔

وقل اعملوا فسیر الله عملکم ورسوله والمومنون

محمد حسن اختری

رئيس مجمع جہانی اہلبیت علیہم السلام

..........

حوالہ جات

(1). المستدرک علی الصحیحین (حاکم نیشابوری)، ج 3، ص 153 ـ اتحاف السائل بما لفاطمة من الفضائل (قلقشندی شافعی)، ص 8 ـ اسد الغابة (ابن اثیر)، ج 5، ص 522 ـ تهذیب التهذیب (ابن حجر عسقلانی)، ج 12، ص 441 ـ کنز العمال (متقی هندی)، ج 7، ص 111.

(2). بحار الانوار (مجلسی)، ج 53، ص 178.

(3). بحار الانوار (مجلسی)، ج ۴۳، ص ۱۱۷.

(4)  ابوجعفر اسکافی (م240ق)، ثعلبی (م427ق)، ماوردی (م450ق)، حسکانی (م471ق)، زمخشری (م538ق)، فخر رازی (م604ق)، ابن اثیر (م630ق)، سبط ابن جوزی (م654ق)، ابن حیان اندلسی (م745ق)، ابن عادل حنبلی (م880ق)، سیوطی (م911ق)، آلوسی (م1270ق)، ابن عجیبه (م1224ق) و جوهری طنطاوی (م1358ق۔

واضح رہے کہ اصغریہ آرگنائزیشن پاکستان اس ملک کی بڑی ثقافتی تنظیموں میں سے ایک ہے جو سندھ کے علاقے میں اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے تعاون سے نوجوانوں کے لیے مختلف طرح کے مذہبی پروگرام منعقد اور ان میں دینی شعور کو اجاگر کرتی ہے۔ 

ای میل کریں