امام خمینی: آپ لوگوں کا اعتبار یہ نہیں ہےکہ آپ فاخر لباسیں پہنیں، بلکہ کوشش کریں کہ معاشرے کا چراغ بن جائیں۔
خبرنگار: مختصراً حضرت امام خمینی(رح) کی اخلاقی شخصیت کے بارے میں کچھ فرمائیں۔
مفسر قرآن کریم آیت اللہ معرفت: جب حضرت امام مدرسہ فیضیہ میں درس دیتے تھے، اُستاد اخلاق سے معروف تھے۔ آپ کا درس اخلاق علوم دینی کے طلاب تک محدود نہیں تھا، بلکہ تاجر برادری، دیندار افراد اور دوسرے لوگ بڑے شوق سے شرکت کرتے تھے۔ آپ کا بیان عام عوام کےلئے موزون تھا، لیکن مختلف طبقات سے تعلق کرنے والے لوگ آپ کے درس سے بہرمند ہوتے تھے۔ گفتگو علمی ہونے کے باوجود، امام علمی اصطلاحات استعمال کرنے سے گریز کرتے تھے۔ اس لئے زبان عام فہم تھی۔ آپ انتہائی گہری، علمی، فلسفی، اخلاقی اور عرفانی مسائل اور مطالب کو سادگی سے اور قابل فہم زبان میں تشریح فرماتے تھے۔ آپ کا بیان، اُس تعبیر کے مطابق جو قرآن کریم کےلئے کہا گیا ہے، سہل اور ممتنع تھا؛ سہل تھا کیوںکہ سب کےلئے قابل فہم تھا اور ممتنع تھا کیونکہ گہرا تھا جسے صرف اہل فن و تحقیق سمجھ سکتا تھا اور یہ بیان کی بہترین روش ہے۔
امام کی روش یہ تھی کہ اخلاقی مسائل کو عرفان کے زاویے سے جو وہی تہذیب نفس اور اعلی مبدأ پر توجہ کرنا ہے، بیان فرماتے تھے۔
خبرنگار: آپ نے فرمایا: امام کی خصوصیات میں سے ایک شاگردوں کو اخلاقی طور پر سخت متأثر کرنا، اخلاقی حوالے سے تربیت کرنا اور پرواں چڑھنا تھا۔ آپ کے خیال میں امام کے بیانات، حرکات اور سکنات کے مجموعے سے ہم تربیت کی کونسی روش اور کیا کیا اہم نکات لے سکتے ہیں؟
آیت اللہ: نجف اشرف میں شیخ انصاری(رح) کی مسجد جو کہ " ترکی مسجد " سے معروف تھی جو "حویش بازار" کی انتہا میں واقع تھی، امام خمینی(رح) اسی مسجد میں درس پڑھاتے تھے۔ مسجد کی فرش کھجور کی چٹائی، دیواریں بٹی کی اینٹوں کی تھی اور بیج میں لوہے کے دو ستون تھے۔ جس پر رنگ بھی نہیں۔ روشنی کےلئے دو ۱۰۰ ووڈ کا بلپ تھا۔ منبر بھی لکڑی کا تھا جس پر کپڑا تک نہیں تھا۔ امام اسی منبر پر بیٹھ کر درس دیتے تھے۔
امام اپنے درس میں دینی علوم کے طلاب سے مخاطب ہوکر فرماتے تھے: آپ لوگ بھی اس مسجد کی مانند ہیں اور یہ مسجد ظاہری طور پر بے رنگ اور بے رونق ہونے کے باوجود عوام کے پاس محترم ہے؛ لیکن نجف میں نئی تاسیس کی گئی محل ایسے نہیں ہیں، عوام کے پاس ان کا کوئی احترام نہیں ہے۔ آپ جب تک صرف طلبہ ہیں اور علم دین کی تلاش میں ہیں اور جب تک اللہ تعالی کے علاوہ آپ کا کوئی اور مقصد نہ ہوگا، اس مسجد کی مانند ہیں۔
آپ بار بار اس مطلب کو دہراتے تھے تاکہ طالب علم اس بات کو اچھی طرح سمجھیں اور ذہن نشین کریں۔
آپ فرماتے تھے: جب بھی آپ لوگ اپنی دنیا بنانے اور دنیا سمیٹنے کے پیچھے مصروف ہوجائیں، قہراً آپ لوگ سب سے پیچھے رہیں گے۔ سب آپ سے آگے نکل جائیں گے اور آپ ہرگز ان تک نہیں پہچیں گے اور ساتھ ہی جو معنویت آپ کے پاس ہے، وہ بھی ہاتھ سے کھو بیٹھیں گے اور اس وقت آپ کے پاس نہ دنیا ہوگی اور نہ آخرت۔ آپ لوگوں کا اعتبار اور افتخار یہ نہیں ہےکہ بڑا گھر ہو، قیمتی اور مجلل فرش ہو اور فاخر لباسیں پہنیں، بلکہ کوشش کریں، آپ معاشرے کا چراغ بن جائیں اور انبیاء(ع) کی مانند عوام آپ سے استفادہ کریں۔ حضرت موسی(ع) اور حضرت عیسی(ع) سے کوئی عالی شان مکان یا محل نہیں بچا ہے، لیکن ان کی عظمت آج بھی باقی ہے۔
امام خمینی و اندیشہ ہای اخلاقی، عرفانی، مصاحبہ ہا علمی؛ مجموعہ آثار؛ ج۳، ص۳۸۴