حکومت کے بارے میں امام خمینی(ره) کا زاویہ نگاہ ہر چیز سے قبل انسان کے بارے میں آپ کے زاویہ نگاہ پر مبنی ہے۔ اس زاویہ نگاہ میں انسان کی اہمیت کی بنیاد جاہ و منصب، دولت و طاقت پر نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ اور قیامت کی جانب انسان کی توجہ اور اپنے اعمال کو اس کے مطابق ڈھالنے پر ہے۔ قیامت پر ایمان لانا جس کا تقاضا کرتا ہے فطری طور پر اقدار کے حامل اس نظام میں انسان کی عظمت اور بڑائی کا معیار اس کے مادی وسائل و امکانات نہیں ہیں بلکہ آخرت کی جانب اس کی توجہ اور جہان آخرت میں اس کی جانب سے بنایا جانے والا اس کا مقام اس کی برائی اور پستی کا معیار ہے۔ (صحیفہ امام، ج ۱۹، ص ۱۵۸)
یہ اقدار کے حامل نظام کا ایک بلند ادراک ہے جو لوگ ادراک کے اس مرحلے تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنی روح کو اس بلندی پر لے جاتے ہیں وہ امام خمینی(ره) کہ جو خود بھی ان معنوی مقولات سے آشنا تھے اور لوگوں کو بھی ان کی تاکید کرتے تھے جیسے بزرگوں کی مانند بہت سے ایسے معنوی امور کو سمجھ لیتے ہیں اور ان کے نزدیک یہ امور قابل عمل بھی قرار پاتے ہیں ۔ ان امور میں سے ایک یہ ہے کہ انسان سادہ زندگی کو اپنے لئے باعث فخر سمجھے اور معنوی اقتدار کی بلندی تک پہنچنے، بے سود رسومات اور انہیں بجالانے والے افراد کی اہمیت گھٹانے اور مادی دنیا کی مادی طاقتوں پر غلبہ پانے کے لئے اس سے استفادہ کرے۔
۱۹۸۱ء کے موسم سرما میں یعنی جب اسلامی جمہویہ ایران کے ارکان منصہ شہود پر آنے والے تھے اور حکومت کے اہلکار امام خمینی(ره) کی رہنمائی کے شدید محتاج تھے اس وقت آپ نے دوسرے ممالک میں زیر تعلیم ایرانی طلباء کی اسلامی تنظیموں کے اراکین کے ایک گروہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیروں سے ایک تفصیلی خطاب کے دوران اس طرز فکر کو مسترد کردیا کہ ہم بڑی اور مزین عمارتوں اور شان وشوکت کی زندگی کے ذریعے خود کو دوسروں کے برابر اور دنیا والوں کی نگاہوں میں اپنے کو بڑا ثابت کر سکتے ہیں ۔ آپ نے دوسرے ممالک میں تعیینات اسلامی جمہوریہ ایران کے بعض سفارت کاروں کے ٹھاٹھ باٹھ عمارتوں اور لمبے چوڑے انتظام کی جاب رغبت رکھنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کی توجہ اس جانب دلائی کہ الٰہی حکومت کے سفارت کاروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے ممالک میں اسلامی آداب و اخلاق کی ترویج کریں اور دوسروں کے ظاہری ٹھاٹھ باٹھ سے مرعوب ہونے کی بجائے اپنی سادہ زندگی اور ظاہری شان و شوکت سے بے اعتنائی کے ذریعے ظلم اور شیطانی قوتوں کی برقراری کی بنیادوں کو ہلادیں ۔ (صحیفہ امام، ج ۱۳، ص ۲۶۲)
اسلامی آئیڈیالوجی پر مبنی اقدار کے حامل نظام کی برقراری کے لئے بانی اسلامی جمہوریہ ایران نے اسلامی حکومت کے قیام کے بعد اپنی با برکت زندگی کے دس سالہ عرصے میں جو وسیع پیمانے پر کوشش کی وہ خدا تعالیٰ اس نیک بندے کی ذات میں موجود شدید جذبے کا پتہ دیتی ہے۔ یہ بات بہت نمایاں ہے کہ قائد انقلاب اسلامی امام خمینی(ره) اسلامی جمہوریہ کے نظام میں اقدار کے راسخ ہوجانے کو اس الٰہی نظام کی بقاء کی اصلی شرط جانتے تھے اور اسی لئے اپنی اکثر تقاریر اور پیغامات میں عوام اور حکام کو اقدار کی پابندی اور معنویت کا دامن تھامے رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے رہتے اور اس نکتے کی تاکید کرتے رہتے کہ اسلامی ہونے کا معیار عمل ہے۔ اصول کی عملی طور پر پابندی کے بغیر ہر گز ہم اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتے ہیں ۔ اس ساری کوشش کا مقصد یہ تھا کہ عوام اور حکام تہذیب نفس کی جانب اپنی توجہ مبذول کریں اور اس حقیقت کو جان لیں کہ تہذیب نفس کے بغیر کوئی شخص بھی عوام کی خدمت نہیں کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا کہ الٰہی حکومت کا مقصد انسان کو تزکیہ نفس اور کمال کے راستے کی تلاش میں مدد دینا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ حکومت احکام اور عادل نظام کی برقراری کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
امام خمینی(ره) نے ولایت فقیہ کی بحث میں صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ ’’ائمہ اور عادل فقہا کی ذمہ داری ہے کہ حکومت اور حکومتی نظام کو احکام الٰہی کے نفاذ ، اسلام کے عدالت پر مبنی نظام کی برقراری اور عوام کی خدمت کے لئے کام میں لائیں ‘‘۔ ( صحیفہ امام، ج ، ص ۴۴)