۵۷ ہجری پہلی رجب بروز جمعہ شہرِ مدینہ میں ایک فرزند پیدا ہوا جس کا نام محمد رکھا گیا آپ کی والدہ فاطمہ امام حسنؑ کی بیٹی اور آپ کے والد امام سجاد علیہ السلام تھے اس لحاظ سے آپ پہلے امام تھے جو ماں اور باپ دونوں طرف سے علوی اور فاطمی تھےآپ نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ اپنے دادا امام حسینؑ کے ساتھ گزارا اور واقعۂ کربلاکے وقت آپ کی عمر مبارک چار سال اور آپ کے والد کی وفات کے وقت آپ کی عمر انتالیس سال تھی آپ کی امامت کی مدت اٹھارہ سال تھی آپ کا زمانۂ امامت درج ذیل اموی خلفاء کے دور میں تھا ولید بن عبدالملک، عمر بن عبدالعزیز، یزیدبن عبدالملک اور ہشام بن عبدالملک۔
اس کے باوجود کے آپ کی امامت ولید بن عبدالملک کے زمانے میں شروع ہوئی تھی جہاں سماجی صورت حال غیر معمولی تھی لیکن آپ ن اسلامی تعلیمات کی ایک ایسی علمی تحریک کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ جو اسلام میں اس وقت بے مثال تھی اس دورمیں حدیثوں کی اشاعت پر پابندی کی وجہ سے انہیں فراموشی کے حوالے کیا جا رہا تھا اور ان کی جگہ خلفاء کی مرضی کے مطابق مطالب کو رکھا جاتا تھا۔
لیکن امام محمد باقرؑ نے مشکلات کو برداشت کیا اور آپ اپنی دور اندیشی سے ایک اہم اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوگئے امامؑ تمام انسانی صفات میں اپنی مثال آپ تھے لہذا آپ ؑ اپنے زمانہ کےپورے اسلامی سماج کے علم و فضیلت کے شیفتہ افراد کواپنے ارد گرد اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئے مسائل ، احکام ، تفسیر، تاریخ اسلام اور دیگر علوم میں روایات ، احادیث اور علمی آثار اس قدر آپ سے منقول ہیں کہ آپ کے فرزندِ بزرگوار امام صادقؑ کے علاوہ دوسرے ائمہ معصومینؑ میں سے کسی سے بھی منقول نہیں ہیں۔
لایق وشائستہ اساتید افراد کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اساتید کی بلند افکاراور ان کی پاکدامنی ہمیشہ تربیت پانے والوں کو انسانی مراحل کے اوج تک پہونچادیتی ہے ۔ محمد بن علی ( امام محمد باقرؑ) نے اپنا بچپنا اپنے والد گرامی کے سایہ کے علاوہ امام حسینؑ کے ساتھ بسر کیا اور آپ نے ان سے آزادگی او بہادری سیکھی ۔ امام باقرؑ کا شمار ان افراد میں سے ہوتا ہے جنہوں نے واقعہ کربلا کا قریب سے مشاہدہ کیا اس کے بعد آپ نے اپنے والد گرامی امام سید الساجدینؑ اور اپنی مثال آپ اپنی پاکدامن والدہ کی عطوفت کے لبریز آغوش میں زندگی بسر کی۔ وحی سے متعلق پاک و پاکیزہ افکار ، پائداری، بزرگی، نفسانی عزت، پاکیزگی اور خدا کی بارگاہ میں عبودیت ایسے دروس ہیں کہ جنہیں محمد بن علیؑ نے اپنے والد گرامی سے سیکھا اور آپ افکار میں اس قدر بلند و بالا تھے کہ کوئی بھی ان تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا تھا ، اور کردار میں آپ اس قدر پائداری اور استقامت کے حامل تھے کہ کوئی بھی تلخ و ناگوار واقعہ آپ کو صراط مستقیم سے منحرف نہ کرپایا۔
امام باقرؑ بچپنے سے ہی سے علم کو شگاف کرنے والے کے عنوان سے پہچانے گئے تھےیہاں تک کہ آپ کے علم کی تعریف و تمجید میں شعراء نے قصیدے پڑھے ہیں اور لکھنے والوں نے زور قلم دکھایا ہے ، عوام الناس اور دانشور آپ کے نام کے شیفتہ رہے ہیں اور یہ شیفتگی اہل عراق کے درمیان زیادہ نظر آتی ہے ، خلیفۂ وقت ھشام بن عبد الملک نے آپ کو مسجد الحرام میں اپنے غلام کا سہارا لیتےہوئے دیکھا اور اس سےپوچھا کہ کیا یہ وہی شخص ہے کہ اہل عراق جس کے علم کے شیفتہ ہیں؟ غلام نے جواب دیا: جی ہاں، خلیفہ نے غلام کو حکم دیا کہ امام کو خلیفہ کے سوالوں کے جوابات کے حاضر کرے ، خلیفہ نے بہت سے سوال کئے اور امامؑ نے اس طرح سے جواب دئے کہ ہشام خاموشی پر مجبور ہو گیا۔