امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: حضرت علی (ع) صرف کوفہ کے حاکم نہیں تھےبلکہ ایک وسیع و عریض حکومت کے سربراہ اور حاکم تھے۔ چونکہ آپ کی حکومت مصر، افریقہ، انڈونیشیا، عراق اور مدینہ سب پر محیط تھی۔ جب اس طرح کا انسان آکر ایک غیر مسلم سے روبرو ہوتا ہے (میں چاہتا ہوں کہ آپ اس بات کی طرف توجہ کریں کہ سیاست دیانت کی کس طرح خدمت گذر ہے) جب حضرت علی (ع) دعوی کرتے ہیں کہ وہ شخص کہتا ہے کہ زرہ میری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس معاشرہ کا کیا ماحول تھا کہ ایک غیر مسلم دنیا کے حاکم سے اس طرح بات کرے کہ جو تم دعوی کر رہے ہو وہ بے بنیاد ہے جبکہ وہ خود جانتا ہے کہ یہ زرہ اس کی نہیں ہے۔ جب وہاں پر قبول نہیں کرتا تو امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں: ہم دونوں کورٹ چلتے ہیں اور وہاں جاکر شکایت کرتے ہیں۔ یہی بات کہ ایک شخص خود کو قانون کے حوالہ کرنے پر تیار ہوجاتا ہے۔ یہی سیاست دین اسلام کی حقانیت کی تلاش کرنے کا باعث ہے۔
وہاں امیرالمومنین (ع) قاضی سے فرماتے ہیں: آپ میرے موجودگی میں بھی دوسروں ہی کی طرح فیصلہ کریں۔ بہر حال قاضی دیکھتا ہے کہ حاکم مسلمین عدالت میں آگیا لہذا اس کا خاص احترام ہونا چاہیئے۔ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: نہیں، میں اس وقت حاکم اور ناظر کے عنوان سے نہیں ہوں بلکہ کورٹ میں ایک شکایت کرنے والے کی حیثیت سے آیا ہوں۔ لہذا آپ میرے ساتھ کبھی دوسروں کی طرح قاضی کے عنوان سے رفتار رکھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ علی (ع) وہاں محکوم ہوجاتے ہیں۔ علی (ع) کی سیاست نے غیر مسلم کو مسلمان کردیا۔ یہ سیاست کے دیانت کے ساتھ امتزاج کا نمونہ ہے۔
آپ، پیغمبر اکرم (ص) کی رفتار میں غور فرمائیں کہ آپ (ص) نے افراد کے ساتھ بار بار اس طرح کا سلوک کیا کہ شخص پیغمبر (ص) کے دین پر ایمان لے آیا کیونکہ وہ دیکھ رہاتھا کہ آپ (ص) حق کا اتباع کررہے ہیں اور حق کی خاطر اتنی ساری زحمتیں برداشت کر رہے ہیں اور معاشرہ میں حق کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ اور اس حق کے مطالبہ میں کسی بھی قرد کی شان و منزلت کے قائل نہیں تھے۔ لیکن جب آپ معاویہ کی حکومت پر نظر ڈالیں گے تو دیکھیں گے کہ معاویہ لوگوں کو کچھ چیزیں بھیج کر کہتا تھا کہ: کہنا کہ معاویہ نے دیا ہے یہ سن کر لوگ اس کے لئے دعا کرنے لگتے تھے لیکن کچھ دنوں بعد علی بن ابی طالب (ع) کے سپاہیوں کے عنوان سے بھیجتا اور ساری دی ہوئی چیزوں کو چھین لیتا تھا۔ تا کہ خود کو لوگوں کے درمیان محبوب اور علی (ع) کو مبغوض بنائے۔ لہذا سیاست اور دیانت کا آپ میں کوئی ربط نہیں ہے یعنی معاشرہ میں آپ کی سیاست کچھ اس طرح ہو کہ دین ترقی کرے اور دینی اقدار جلوہ گر ہوں۔ اور معاشرہ میں اسلام کی حقیقت روشن ہو۔
انبیائے عظام بھی اپنے لئے نہیں آئے ہیں بلکہ خود کو دین کا خادم جانتے تھے اور اس طرح سلوک کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ لوگ دین کی طرف مائل ہوں۔ دین اور سیاست کے درمیان اس قسم کا امتزاج امام خمینی (رح) کی نظر میں قابل قبول اور مورد تائد تھا۔ یہی نہیں بلکہ دین، قرآن اور اسلام کے مد نظر اور قابل قبول امر ہے۔ لیکن اگر آپ دیکھیں کہ اصل میں سیاست ہی اور دین سیاست کے ہاتھوں بازیچہ بنا ہوا ہے تو پھر نہ اسے اسلام قبول کرتا ہے اور نہ ہی کوئی عقل و خرد۔
امام نے زمانہ کو بدلا ہے نہ کہ زمانہ خاص تھا کہ ہم کہہ سکیں اگر کوئی دوسرا بھی ہوتا تو یہ اتفاق ہوسکتا تھا۔ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ یہ خود حضرت امام (رح) تھے جنہوں نے اپنے لائق شاگردوں کی تربیت کی اور اپنے افکار منتقل کئے اور خود امام (رح) کے بقول ان سپاہیوں کی تربیت جو ابھی گہوارہ میں تھے، بتاتی ہے کہ معاشرہ نے اپنا مقصد کہاں سے شروع کیا ہے اور کس طرح امام (رح) کے اذہاں پر کام کیا ہے۔
اہم یہ ہے کہ جس حقیقت کا انکشاف کیا ہے وہ ایک درست حقیقت تھی یعنی حقیقت کا انکشاف کہا تھا اور حقیقت ہمیشہ دلکش ہوتی ہے یعنی اگر در میان میں حق و حقیقت ہو تو ممکن ہی نہیں کہ اس میں دلکشی نہ ہو۔