حضرت امیرالمومنین (ع) نے جب مالک اشتر کے نام خط لکھا تو اس میں آپ نے انہیں پہلا حکم یہ دیا کہ آپ کے تمام امور کا مرکز و محور خدا کی ذات ہونی چاہئیے اور مصری معاشرے پر اپنی حکومت کا ہدف صرف اور صرف خدا اور رضای خداقرار دیں۔ اور مندرجہ ذیل پانچ امور میں اس امر کا شدت سے خیال رکھیں۔
- خوف خدا
- رضائے خدا کو مخلوق کی مرضی پر ترجیح دینا
- اوامر الہی کے اجراء میں خدا کی اطاعت
- اللہ تعالی کی اپنے ہاتھ زیان اور دل سے مدد کرنا
- خدا کی رحمت کے سائے میں رہتے ہوئے اپنے نفس امارہ سے جنگ کرنا
- اللہ تعالی کی غیبی مدد پر بھروسہ رکھنا
(بحار الانوار، ج 74، ص 242)
اسلامی معاشرے کی قیادت اور سربراہی میں امام کی کامیابی کا ایک مہم ترین راز آپ کا خداوند متعال کی غیبی مدد پر بھروسہ کرنا ہے کہجو خدا محوری کا اولین مظہر ہے۔
حضرت امام (رح) اپنے الہی اور سیاسی وصیت نامہ میں فرماتے ہیں:
ہمیں معلوم ہے یہ ایک بہت بڑا انقلاب ہے کہ جس نے دنیا کے بڑے بڑے ستمگروں اور خون خواروں کو ایران جیسے ملک میں شکست دے کر ان کا اقتدار اور غلبہ ختم کردیا ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ سارا کچھ خداوند متعال کی غیبی مدد سے ہوا ہے۔ اور اگر خداوند متعال کی غیبی مدد نہ ہوتی تو ایسا کبھی ممکن ہی نہیں تھا۔ اور نہ ہی یہ تین کروڑ ساٹھ لاکھ افراد پر مشتمل عوام کبھی انقلاب لاسکتی کیونکہ اس زمانے اسلام دشمن عناصر کی اسلام اور علمائے کرام کے خلاف تمام تر سازشیں اور پروپیگنڈے کہ جن میں فرقہواریت اور لاتعداد درباری مورخ شاعر اور خریدے گئے مقرر کہ جو ہمیشہ اپنی مجالس اور محافل میں اسلام کے خلاف اشعار پڑھتے اور تقریریں کیا کرتے تھےان کی کوششیں اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام تر فحاشی اور بدمعاشی کے اڈے جو کہ کھلم کھلا اسلامی احکام کی صد میں کام کررہےتھے نیز منشیات و غیرہ، یہ تمام جرائم خصوصا اس آخری صدی کی پیداوار تھے کہ جس میں انقلاب رونما ہوا۔ ایسے حالات میں بالکل ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی ملت یکدم انقلاب برپا کردے۔(امام خمینی (رح) کا سیاسی اور الہی وصیت نامه، ص 13)
لہذا یہ غیبی ممد تھی کہ جس کے سبب انقلاب کامیاب ہوا اسی طرح جس زمانے خرم شہر کو ایرانی قوم نے آزاد کروایا تو امام خمینی(رح) نے اس آزادی کو غیبی مدد سے نسبت دی اور فرمایا: خرم شہر کو خدا نے آزاد کیا ہے۔
امام (رح) کی انقلابی تحریک خدامحوری کی ایک اور علامت ہے کہ جس سے آپ کا خدا پر توکل کرنا اور اپنے وظائف کو احسن طریقے سے انجام دینا نظر آتا ہے کیونکہ یہ کام فقط سادہ لوحی اور آنکھیں بند کرکے انجام نہیں دیا جاسکتا بلکہ عقل اور فکر کی روشنی میں مسائل کی صحیح شناخت حاصل کرنے کے بعد زمان و مکان کی شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے اسے انجام دینا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام (رح) ہمیشہ اپنے آپ کو فرائض ادا کرنے کے ذمہ دار سمجھتے تھے اور اس کام میں کبھی سستی اور غفلت نہیں کیا کرتے تھے۔