عرفاء کے زاویہ نگاہ کے مطابق قرآن روح القدس کا پھونکنا اور اسماء اور صفات الٰہی کی تجلی ہے۔ قرآن الفاظ اور کتابت میں آنے سے قبل حقیقت وجود جمعی احدی کا حامل ہے اور تحقق دہری اور ہستی سرمدی رکھتا ہے۔اس صورت میں قرآن ازلی حقیقت ہے۔ اگر رائج نظرئیے کے ساتھ بات کرنا چاہیں کہ جس کی ثقافت میں تاویل نے نشو ونما پائی تو قرآن کلام نفسی ہے اور خداوند کے پاس وجود رکھتا ہے وہ اس لیے لفظی ساخت اور بناوٹ کو ایک نمود جانتے تھے کہ یہ اس کلام نفسی دلالت کرتی ہے۔ اگر کوئی اس کی حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس کو ان الفاظ سے ضرور گزر جانا چاہیے۔ اس کے وجود الفاظ اس حقیقت کو محدود نہیں کرسکتے، الفاظ کا مقید ہونا، معانی کی وسعت اور ان کی بالاتر دلالت پر اثر انداز نہیں ہوتا ہے۔ بنابریں ، عارف پر لازم ہے کہ وہ ان الفاظ کا جائزہ لینے کے بجائے ان کے پیچھے پوشیدہ حقیقت کا کھوج لگائے اور صاحب کلام کی تلاش کرے، کیونکہ قرآن اس کی نازل کردہ حقیقت ہے۔ کلام سمجھنے کیلئے اس حقیقت کی طرف توجہ کرنی چاہیے نہ کہ الفاظ اور حروف پر۔
یہ نظریہ اس نظرئیے کے مقابل میں ہے جو کہتا ہے کہ ہر متن کے محدود اور معین معانی ہوتے ہیں اور معنی کی دلالت، الفاظ اور ظہور لفظی کے تابع ہوتی ہے۔ اگر کوئی کہنے والے کے مقصود اور مراد تک پہنچنا چاہتا ہے تو اسے اس پل پر سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلا نظریہ الفاظ کو معنی کا صرف وسیلہ اور علامت جانتا ہے۔ ایسی علامت جو مقصود کیلئے کافی نہیں ہوتی اور صاحب کلام کے مقصود کی گنجائش نہیں رکھتی۔
اس جہت کی بنا پر بعض دفعہ کہا جاتا ہے:
’’قرآن کے منازل، مراحل اور باطن ہیں ۔ اس کا نچلا مرحلہ الفاظ کے چھلکے اور تعینات کی قبور میں ہے اور یہ آخری منزل، عالم طبیعت کی تاریکیوں کے قیدیوں کا حصہ ہے اور اس کے دوسرے مراتب ان لوگوں کیلئے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو عالم طبیعت کی نجاستوں اور آلودگیوں سے پاک کر لیا ہے‘‘۔ (شرح دعائے سحر، ص ۳۸)
جب عرفاء نچلے مرحلے کو الفاظ کا چھلکا قرار اور الفاظ کو قرآن کا حصار قرار دیتے ہیں جو کہ بقول ان کے تعین کی قبر ہے تو معلوم ہے کہ کلام الٰہی کے بارے میں ان کا گمان کیا ہے اور الفاظ اور تاویل کیلئے ان الفاظ کو استعمال کرنے کے بارے میں ان کی نگاہ کیسی ہوگی۔
قرآن کے بارے میں ان کے زاویہ نگاہ سے آگاہ ہونے کیلئے ہم ایک اور مطلب کی طرف اشارے کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ الفاظ کس حد تک تاویل کیلئے قدر وقیمت رکھتے ہیں :
’’جیسا کہ معلوم ہوا اس عالم میں نزول سے قبل قرآن کے مقامات اور کینونتیں ہیں ۔ اس کا پہلا مقام اس کی علمی کینونت ہے جو حضرت غیبیہ میں تکلّم ذاتی اور مقارعہ ذاتیہ کے ساتھ احدیت جمع کے طورپر ہے اور غائب کی ضمیر [{ اِنّٰا اَنْزَلْنٰاہُ }] کا اشارہ شاید اسی مقام کی طرف ہے اور اس معنی کو سمجھانے کیلئے غائب کی ضمیر ذکر کی گئی ہے۔ گویا خدا فرماتا ہے کہ { لَیْلَۃُ الْقَدْر} میں نازل ہونے والا یہی قرآن وہی علمی قرآن ہے جو نشئہ علمیہ میں سرّ مکنون وغیبی ہے اور اس کو ہم نے ان مراتب سے کہ جو ایک مقام میں ذات اور تجلیات اسمائیہ کے ساتھ متحد تھا، نازل کیا اور یہ حقیقت ظاہر وہی سرّ الٰہی ہے اور یہ کتاب جو الفاظ وعبارات کے لباس میں ظاہر ہوئی ہے، ذات کے مرتبے میں تجلیات ذاتیہ کی صورت میں اور فعل کے مرتبے میں تجلی فعلی ہے‘‘۔(آداب الصلاۃ، ص ۳۲۴)
اس زاویہ نگاہ میں قرآن تنزل یافتہ اور اس حقیقت کا سایہ ہے تنزل سے پہلے ان مراتب ذات کے ساتھ متحد تھا۔ اس لیے سرّ مکنون، عینی اور حق کی ذاتی تجلی ہے اور اسماء کے مرتبہ میں اسماء کی تجلی اور فعلی مرتبہ میں فعلی تجلی ہے۔ لہذا الفاظ کہ جو نچلے مرحلے میں واقع ہیں ، حقیقت کے ایک ہی گوشہ کی نشاندہی کرتے ہیں نہ کہ تمام حقیقت کی۔
اس اصول ومبنیٰ کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ حقیقت قرآن کا فہم مختلف علامات سے سروکار رکھتا ہے۔ ان علامات میں سے ایک الفاظ اور زبانی نشانیاں ہیں اور دوسری علامات بالخصوص عقلی، قلبی اور شہودی نشانیوں کے پیچھے جانا چاہیے۔ انہیں پہچانیں ان کلمات اور علامات کے ارتباط کو کشف کریں اس صورت میں تجلیات حق الفاظ میں ظاہر ہوں گی۔