ایران کی مسلمان قوم کی عظیم جد وجہد کا نتیجہ سامنے آنے کے بعد اب انقلابی نظام کی تثبیت وتشکیل کا مرحلہ سامنے آیا نظام کے بہت سارے مخالف سامنے آئے چنانچہ منحوس رضا شاہ پہلوی کے جو رشتے دار باقی رہ گئے تھے اور بیرونی ممالک کے ان کے حامی افراد، سیاسی پارٹیاں جو لوگوں سے اپنی حمایت کی مدعی تھیں ، لبرال وآزادی خواہ لوگ جن کی تربیت مادی والتقاطی مکتب میں ہوئی تھی اور ایک طرف کچھ نا اہل مقدس مآب لوگ جو اسلام سے غلط نتائج بر آمد کئے تھے یہ سارے لوگ اسلام کی بنیاد پر تشکیل پانے والے نظام کے مخالف تھے دوسری طرف ان میں سے ہر ایک اپنی تشکیلات کو ایجاد کرنے کیلئے اپنے اپنے افکار ونظریات کی ترویج کر رہا تھا کچھ لوگ یہ چاہتے تھے کہ دوبارہ شاہی حکومت برقرار ہو جائے اور سلطنتی نظام قائم ہو جائے کچھ لوگوں کا نظریہ تھا کہ جدید نظام کی تشکیل میں دین کی کوئی وضاحت ہی نہ ہو چنانچہ انہوں نے ایک جمہوری حکومت یا جمہوری ڈیمو کریسی کو ترجیح دیا کچھ لوگ گوشہ نشینی ورہبانیت کا تذکرہ کر رہے تھے اور مسلمانوں کے ذریعے تشکیل پانے والی حکومت کی مخالفت کر رہے تھے۔
امام خمینی (رح) نے ان مختلف نظریات اور لوگوں کے طرح طرح کے خیالات کو سننے کے بعد ان تمام نظریات کو ٹھکرا دیا جو حقیقت بین نہ تھے وہ غیر متعادل تھے لوگوں کی خواہش پر غیر منطبق تھے آپ نے لیبرالزم اور مقدس مآبی کے نقصانات سے با خبر کیا کیونکہ ان دونوں کا نعرہ یہ ہے کہ دین سیاست سے الگ ہے آپ نے مشرق وسطیٰ کی مسلمان قوموں ، ایشیاء کے بہت سارے ملکوں اور خصوصاً ایران کی مسلمان قوم کی اسلام خواہی کا ذکر کرتے ہوئے حکومت کی نوعیت کے بارے میں اپنا نظریہ یوں ظاہر فرمایا :
یہ ایک عالمی انقلاب ہے در حقیقت آج کل کا انسان اس مادیت کے اختتامی مر حلے میں ہے جس میں معنو یت جدا ہوتی ہے ہر جگہ مادیت مغلو ب ہو رہی ہے معنو یت دوبار بلند ہو رہی ہے، مادیت کے معنی یہ ہیں کہ مادی قدرت حاصل کرنے کیلئے جس طرح اور جس چیز کے ذریعے ہو کوئی حرج نہیں اسی لئے انسان کے بہت سے کاموں میں مشکل کھڑی ہو گئی ہے اب وہ وقت آچکا ہے کہ مادی کار کردگی انسان کی معنوی بلندی کیلئے مقدمہ شمار ہو تی ہے اور یہی چیز آج کل کی بشریت کو مذہب کی طرف واپس لے آئے گی، اسلام ایک ایسا دین ہے جو اپنی مادی کار کرد گیوں کو منظم کر کے انسان کیلئے معنوی بلندی کا راستہ ہموار کر تا ہے۔( صحیفہ امام، ج ۴، ص ۳۵۹)
جو لوگ ایرانی عوام کے مقدس مقصد کو چھوڑ کر دوسرے اغراض ومقاصد کو ترجیح دیتے تھے آپ نے ان پر حجت تمام کرتے ہوئے انہیں آگاہ وبیدار فرماتے ہوئے اعلان کیا :
ہماری قوم کی بد بختی اس وقت شروع ہو جائے گی جب لوگ قرآن سے الگ ہو جائیں ۔ احکام الٰہی سے جدا ہو جائیں ۔۔۔ ہم اسلام کی پناہ میں رہ کر آزادی چاہتے ہیں ، اسلام کی پناہ میں استقلال چاہتے ہیں ، بنیاد اسلام ہے، یہ لوگ آپ کیلئے ایک مغربی حکومت تشکیل دینا چاہتے ہیں کہ آپ آزاد بھی رہیں اور مستقل بھی، لیکن خدا، پیغمبر، امام زمانہ، قرآن اور احکام خدا یہ سب نہ ہوں ۔۔۔ آپ قرآن کو چاہتے ہیں ، آپ نے اسلام کیلئے قیام کیا ہے، علماء نے جو یہ زحمت ومشقت برداشت کی ہے اور برداشت کر رہے ہیں یہ سب اسلام کیلئے ہے، جہاں پر بھی ’’ جمہوری ‘‘ کا نعرہ لگا یا جائے تو آپ یہ سمجھ لیں کہ کوئی سازش ہے کیونکہ انہوں نے اس کے ساتھ اسلام کا نام نہیں لیا اور جہاں پر ’’جمہوری ڈیموکریسی‘‘ کا نعرہ لگائیں تو آپ سمجھ لیں کہ ضرور کوئی سازش ہے آپ سمجھ لیں کہ اسلام کو چھوڑ کر یہ نعرہ لگائے جا رہے ہیں ، اسلام سے ہٹ کر آزادی چاہتے ہیں اور اسلام کو چھوڑ کر استقلال چاہتے ہیں ۔ (صحیفہ امام، ج ۷، ص ۴۶۰)
یہ لوگ قوم کو اس کی راہ سے گمراہ کرنا چاہتے ہیں ، آپ کی راہ، اسلام کی راہ ہے، آپ کی راہ یہ ہے کہ ’’ جمہوری اسلامی ‘‘ بر پا کرنا چاہتے ہیں ، میں جمہوری اسلامی کو ووٹ دوں گا اور آپ تمام حضرات سے بھی یہی درخواست کر رہا ہوں کہ جمہوری اسلامی کو ووٹ دیں نہ ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ۔ (صحیفہ امام ،ج ۶، ص ۳۵۳)
امام خمینی (رح)نے خالص اسلام کے اصول ومبانی کا بہت گہرا مطالعہ کیا تھا اور آپ گمراہ گروہ کی چالوں سے بڑی اچھی طرح واقف تھے کیونکہ وہ لوگ اپنی زہریلی تفسیر وتحلیل اور تجزیہ کے ذریعے ایرانی عوام کو مکتب اسلام سے دور کرنا چاہتے تھے اسی لئے آپ نے اس جدید نظام کی تشکیل میں اسلام کو دخالت دی اور آپ نے اسلامی حکومت پر زو ر دیا آپ نے دوبارہ اس دین کو رونق بخشی جو لوگ اسلام کے خواہاں تھے لیکن استعماری طاقتوں کے ذریعے ذلیل ہو چکے تھے آپ نے ان سب کو معنویت کے ذریعے پناہ دی اور خدا پر توکل کر کے ایک شرافت مندانہ اجتماعی زندگی کی طرف دعوت دے کر انہیں صاحب قدرت اور با عظمت وشوکت بنادیا۔