امام خمینی (رح) کی جانب سے معنو یت کے رجحان کی تھیوری بیان کرنے کے بعد بحران سے نجات حاصل کرنے کیلئے ایرانی عوام نے دوسری قوموں سے زیادہ اس کا استقبال کیا اور اسے تسلیم کیا کیونکہ ایرانی لوگ ایک طولانی عرصے سے اپنے بنیادی حقوق اور جائز آزادی سے محروم تھے ان پر بادشاہوں اور لٹیروں کی جانب سے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی طور پر ظلم وستم ہو رہے تھے ان کی زندگی بڑی سخت تھی، دین کی کوئی اہمیت نہ تھی، ایمان کی بنیادیں کمزور تھیں ، انسانی اقدار پامال ہو رہے تھے، گھریلو زندگی کا نظام درہم برہم تھا، اجتماعی وثقافتی مراکز پر تباہی آ چکی تھی اور سارے جوان لڑکے اور لڑکیاں ذلت وپستی سے رو برو تھیں انہوں نے تاریخ میں پڑھا تھا:
ایک زمانہ وہ تھا کہ جب شاید پورے یورپ میں بارہ افراد بھی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے جبکہ نیشاپور (ایرانی شہر) میں بارہ ہزار مرصع قلمدان موجود تھے انہوں نے جناب رسول خدا ؐ کے فرزند حضرت امام علی رضا (ع)کی زبان مبارک سے سن کر ایک ’’سلسلۃ الذہب‘‘ نامی حدیث کو لکھا۔
مسلمانوں نے علم وصنعت میں ایسی ترقی کی کہ بعد میں انگریزوں کے ذریعہ ان کی مزید تکمیل ہوئی کم سے کم ہارون رشید کے زمانے سے طرح طرح کی آبی گھڑیاں (پن گھڑیاں ) مسلمانوں کے پاس رائج تھیں اور ان کی تکمیل ہوئی مسلمانوں نے ’’ شادوف ‘‘ نامی پانی کھینچنے کی مشین کی تکمیل کی صلیبی لوگ اسے یورپ لے گئے، ہوا چکی یورپ سے صدیوں پہلے سے اسلامی مشرقی ممالک میں رائج تھی ۔۔۔ تیرہویں صدی میں اسلامی کتابوں کا ترجمہ اور ان کی شرح کاسلسلہ آکسفورڈ کے بڑے بڑے مدارس میں بڑے ذوق وشوق سے شروع ہو گیا۔
امام خمینی (رح) کے بقول: کچھ غیر مسلم دانشوروں نے زندہ شواہد کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ یورپ میں اسلام کے ذریعے تمدن اور علم لے جایا گیا ہے اور سارے مسلمان ان امور میں آگے آگے تھے۔( صحیفہ امام، ج ۱۸، ص ۹۰)
وحشت وجہالت کے دور میں روم کی شہنشاہی کے خاتمہ کے بعد عیسائیوں نے تمام چیزوں کو جیسے: ہیئت، شیمی، طب، ریاضی وغیرہ کو مسلمانوں سے سیکھا اور وہ لوگ اسی ہجری کی ابتدائی صدیوں سے مجبور ہوئے کہ اس زمانہ کے رائج علوم کو سیکھنے کیلئے مسلمانوں کے پاس زانوئے ادب تہہ کریں ۔
ہاں ! ان لوگوں نے تاریخ میں ان تعجب خیز خبروں کو پڑھا تھا کہ مسلمانوں کو تمام علوم میں کس قدر مہارت حاصل تھی اور ان کی تہذیب وتمدن کاستارہ بہت اوج پر تھا اور یہ کوئی بڑی پرانی بات نہ تھی بلکہ ابھی کچھ ہی پہلے زوال آیا تھا وہ اس عظمت وشرافت کی طرف دوبارہ پلٹنے کیلئے بے چین تھے۔ کلی طور پر ایرانیوں کی فطرت پاک تھی اور پوری قوم کے دل وجان کے اندر خدا پر یقین، دین پر فخر تھا معنوی امور کا جو خلا تھا اس کا مشاہدہ ہو رہا تھا گزشتہ تاریخی عظمت کی طرف واپس ہونے کا شوق وجذبہ کروٹیں لے رہا تھا جس کی وجہ سے پوری مسلمان قوم متحد ہو گئی اور میدان جہاد میں آگئی اور جب انہیں کے درمیان سے قیام کرنے والے ایک رہبر کا رہائی بخش وعظمت آفرین پیغام ان کے کانوں میں ٹکرایا تو دل وجان سے قبول کر کے بلند آواز سے اس طرح اعلان کر دیا:
’’ از توبہ یک اشارت، از ما بہ سر دویدن ‘‘ (آپ کا اشارہ پاتے ہی ہم میدان جہاد میں دوڑ پڑیں گے)