اسلام

اسلام کے نسخ ہونے کا تصور نہیں ہے

اسلام کے اخلاقی اصول، نسبی نہیں ہیں بلکہ مطلق اور عمومی ہیں

اسلام کے اخلاقی احکام، وحی الٰہی اور شارع مقدس کے فرمان کی بنا پر وضع کئے گئے ہیں  اور وہ حضرت خاتم الانبیاء  ﷺکے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں ۔ یہ اخلاقی احکام واصول، ثابت وپائیدار دائمی اور ناقابل نسخ ہیں  بلکہ منسوخ ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں  ہے ان اخلاقی احکام کے رفع اور عوض ہونے پر کوئی دلیل نہیں  ہے اور اسلام کا منسوخ نہ ہونا بدیہی، ضروری وقطعی اور مسلم ہے۔ کوئی طاقت بھی اسلام کے کسی حکم کو منسوخ نہیں  کر سکتی۔ بنابر ایں  اسلا می اخلاقی اصول، نسبی ومتغیر وموقت اور بے ثبات نہیں  ہیں  بلکہ مطلق اور جاوید ہیں ۔

امام (ره) نے اسلام کے منسوخ نہ ہونے کو دلیل عقل اور حکم عقل سے ثابت کیا ہے آپ نے فرمایا ہے:

یہاں  ہر حکم عقل کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور الٰہی قوانین جہاں  تک عقل کی دسترس میں  ہیں  ان کے بارے میں  تحقیق کی ضرورت ہے یہ دیکھا جائے کہ اسلام نے اس طرح کے جن قوانین کو پیش کیا ہے ان میں  نسخ کی کوئی گنجائش ہے یا نہیں  کیونکہ یہ کامل اور ہر زمانہ کیلئے مناسب ہیں  انہیں  منسوخ نہیں  ہونا چاہئے اور ان کا منسوخ ہونا حکم عقل سے خارج ہے۔۔۔ کلی طور پر جو قوانین قابل نسخ ہوتے ہیں  وہ انسان کی معنوی ومادی زندگی کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے کافی نہیں  ہوتے یا اس سے بہتر کوئی قانون ہو جو مادی ومعنوی زندگی کی ضروریات کو پورا کر سکے۔۔۔ اسلام کے تمام عظیم قوانین ان دونوں  پہلو کے حامل ہیں  کہ مادی ومعنوی تمام ضروریات کو پورا کرتے ہیں ، اسلام نے مادی ومعنوی زندگی کو ایک ساتھ بیان کیا اور ہر ایک کو دوسرے کا مددگار بتایا جیسا کہ قانون سے آشنا لوگ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں  اور یہ ایک عظیم شاہکار ہے یہ جو اس قانون کے مختصات میں  سے ہے۔۔۔ ایسا عظیم قانون جس میں  اتنی کشش پائی جاتی ہے کہ قابل نسخ نہیں  ہے بلکہ ہمیشہ دائمی ہے اور تمام ملکوں  کیلئے بنایا گیا ہے۔۔۔ ایسا قانون کبھی منسوخ نہیں  ہو سکتا۔(  کشف اسرار، ص ۳۹۴، ۳۹۷)

اسلام

  اسلام کا عالمی پیمانہ پر ہونا

اسلام ایک جہانی وعالمی مکتب ہے حضرت پیغمبر اسلام (ص) کی رسالت کا دائرہ بہت وسیع ہے اور وہ تمام دنیا والوں  کیلئے ہے۔

قرآن میں  اس بات کی صراحت موجود ہے کہ خدا نے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ اپنی رسالت کے عالمی ہونے کا اعلان کردیں  { قُلْ یَاأَیُّہَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اﷲِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا }آپ کہہ دیں  کہ اے لوگو! میں  تم لوگوں  کے پاس خدا کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔( سورۂ اعراف، ۷؍۱۵۸)

یہ حقیقت ان آیات میں  بھی بیان کی گئی ہے: سورہ سبا، آیت ؍۲۸؛ سورۂ مدثر، آیات ؍۳۱، ۳۶ ؛ سورۂ فرقان، آیت ؍۱؛ سورۂ تکویر، آیت ؍۲۷؛ سورۂ انعام آیت ؍۱۹۔

امام خمینی (ره) نے اپنی کتاب چہل حدیث میں  حضرت علی (ع) سے حضرت رسول اکرم  (ص) کی وصیت نقل کرتے ہوئے اس کے بارے میں  لکھا ہے:

البتہ یہ بات معلوم اور واضح ہے کہ ان امور میں  سے کسی ایک میں  بھی خود آپ کیلئے کسی نفع کا تصور نہیں  بلکہ دوسرے کو نفع پہنچانا مقصد ہے اگرچہ در اصل جناب امیر  (ع) مخاطب تھے لیکن چونکہ عمومی فرائض مشترک ہوتے ہیں  لہٰذا ہمیں  حتی الامکان یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جناب رسول خدا (ص)کی وصیت یوں  ہی نہ رہ جائے۔ (شرح چہل حدیث، ص ۴۷۰)

اتحاد

اس حقیقت کے پیش نظر اسلام کی تعلیمات، عالمی پیمانہ پر ہیں  اور قیامت تک کیلئے روئے زمین پر دنیا میں  بسنے والے تمام انسانوں  کیلئے ہیں بنا برایں  اس کے اخلاقی اصول بھی عالمی پیمانہ پر ہیں  کسی ایک قوم، ایک نسل اور ایک زبان سے مخصوص نہیں  ہے اس لحاظ سے اسلام کے اخلاقی اصول، نسبی نہیں  ہیں  بلکہ مطلق اور عمومی ہیں  اور قرآن بھی ایک عالمی اور جاودانی کتاب ہے اور عالمی اخلاقی اصول، جاوید ومطلق ہوتے ہیں۔

ای میل کریں