سانحہ فیضیہ کے چہلم کے موقع پر ایک پیغام میں امام خمینیؒ نے ۲ مئی 1963 کو غاصب اسرائیل کے خلاف اسلامی ممالک کے سربراہوں کی جنگ میں ایران کے علماء ار عوام کی حمایت پر زور دیتے ہوئے شاہ اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی مذمت کی (1)۔ اس طرح آپؒ نے اپنی تحریک کے آغاز سے ہی اس حقیقت سے روشناس کرایا کہ ایران میں اسلامی تحریک امت مسلمہ کے مفادات سے علیحدہ نہیں اور آپؒ کی یہ تحریک پورے عالم اسلام کیلئے ایک اصلاحی تحریک ہے جو صرف ایران کی جغرافیائی علمائے کرام کے نام ایک خط میں امام ؒ نے لکها : اسلام اور ایران کو اسرائیل سے بہت زیادہ خطرہ لاحق ہے ، اسلامی ممالک کے خلاف اسرائیل کے ساته یاتو معاہدہ ہو چکا ہے یاہونے والا ہے ۔۔۔ خاموش رہنے اور پیچهے ہٹے رہنے سے ہم سب کچه کهودیں گے ، ہمارے اوپر اسلام کا حق ہے ، پیغمبراسلامؐ کا حق ہے ،اس دور میں انحضورؐ کی جانگداز تکلیفوں ( سے قائم ہونے والا دین) زوال پذیر ہورہاہے علمائے اسلام اور دین مبین سے وابستہ افراد کو چاہئے کہ وہ اپنافرض اداکریں ، میں عزم مصمم کر چکاہوں کہ جب تک اس فاسد حکومت کو گٹهنے ٹیکنے پر مجبور نہ کروں چین سے نہیں بیٹهوںگا ۔ (۲)
محرم کا مہینہ آپہنچا جو جون 1963 م کے مطابق تها ۔ امام خمینیؒ نے عوام کو شاہ کی جابر و آمر حکومت کے خلاف انقلاب کی دعوت دینے کیلئے اس موقع سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا۔ عاشورا کے دن ایک لاکه کے مجمع نے تہران میں امام خمینیؒ کی تصویریں اٹها کر مظاہرہ کیا اور پہلی بار دارالحکومت میں کاخ مرمر(محل ) کے سامنے جو شاہ کی رہائش گاہ تهی ’’ ڈیکٹیٹر مردہ باد ‘‘ کے نعرے لگا ئے گئے۔ اس کے بعد کئی روز تک (تہران) یونیورسٹی اور بازار کے علاقے کے علاوہ برطانوی سفارت کے سامنے امام ؒ کی تحریک کی حمایت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ۔
امام ؒ نے ۳ جون ۱۹۶۳م کو محرم ۱۳۸۳ ه ق کے عصر عاشوراء کے وقت مدرسۂ فیضیہ میں ایک تاریخی خطاب کیا جو ۱۵ خرداد ( ۵ جون ) کی تحریک کاپیش خیمہ ثابت ہوا ۔ امام ؒ کے خطاب کا معتد بہ حصّہ پہلوی خاندان کے برے اعمال ،نیز شاہ اور اسرائیل کے خفیہ تعلقات کو فاش کرنے پر مبنی تهی ۔ اسی خطاب میں امام خمینیؒ نے بلند آواز سے شاہ کو مخاطب قرار دے کر فرمایا تها : ’’صاحب ، میں تجهے نصیحت کرتا ہوں ، مسٹر شاہ ! میں تجهے نصیحت کرتا ہوں ، ان حرکتوں سے باز آجا۔ تجهے لوگ غافل کررہے ہیں ، میں یہ نہیں چاہتا کہ اگر لوگ چاہیں کہ ، تو چلا جائے تو سب شکر بجالائیں ۔۔ اگر وہ لوگ تیرے ہاته میں ڈیکٹیشن دے کر تجهے پڑهنے کے لئے کہتے ہیں کہ تو اس مسئلے پر سوچو ۔۔ میری نصیحت سن لو ۔۔ شاہ اوراسرائیل کے درمیان کیا تعلق ہے ؟ کہ ساواک والے کہتے ہیں اسرائیل کے بارے میں کچه مت کہو ۔۔کیا شاہ اسرائیلی ہے (3)؟
امام خمینیؒ کے فرمودات شاہ کے وجود پر بجلی بن کر گرے ، شاہ کی توسیع پسندی جنون کی سرحدیں چهورہی تهی اور اس کا فرعونی تکبر زبانزد خاص وعام ہو چکاتها ، اسی لئے اس نے تحریک کی آواز کو دبانے کا حکم دے دیا چنانچہ ابتدائی قدام کے طور پر ۴ جون کی شام کو امام خمینیؒ کے ساتهیوں کی بڑی تعداد کو گرفتار کرلیا گیا اور ۵ جون کو فجر سے پہلے آدهی رات کے وقت ۳ بجے تہران سے بهیجے گئے سو کمانڈوں نے امام خمینیؒ کے دولت کدے کا محاصرہ کیا اور امام کو گرفتار کرکے سراسیمگی کے عالم میں تہران لے گئے، اس وقت آپ نماز تہجد میں مصروف تهے ۔ امام ؒ کو آفیسر ز کلب کے قید خانے میں مقید کرلیا گیا اور اسی دن شام کے وقت آپ ؒ کو قصر جیل بهیج دیا گیا ۔ امام ؒ کی گرفتاری کی خبر قم اور نواحی علاقوں میں جنگل کی آگ کی طرح پهیل گئی ۔ اردگرد کے دیہاتوں اور شہر کے گلی کوچوں سے لوگ اپنے قائد کے گهر کی طرف امڈ آئے ۔ لوگوں کا بنیادی نعرہ ’’موت یاخمینی ‘‘ تها جس کی آ واز یں پورے قم کی فضا میں گونج رہی تهیں ۔عوام کا اشتعال اتنا زیادہ تها کہ ابتدا میں پولیس کے کارندے ان سے مقابلہ کرنے کی جرأت نہ کرتے ہوئے بهاگ نکلے اور بعد میں وہ اپنی طاقت یک جاکر کے واپس آئے ۔ آس پاس کی فوجی چهاؤنیوں سے فوج کے امدادی دستے قم کی طرف روانہ ہوئے۔ لوگوں کا ٹهاٹهیں مارتا ہوا سمندر حرم حضرت معصومہؑ سے باہر نکل رہاتها کہ مشین گنوں کے منہ سے گولیاں برسنے لگیں ، (عوام اور پولیس) میں مڈبهیڑ کئی گهنٹے تک جاری رہی ، اس دوران خون کی ندیاں بہنے لگیں ، تہران سے فوجی جہازوں کی پروازیں شروع ہوگئیں قم کی فضا میں پہنچ کر ان جہازوں نے لوگوں میں خوف وہراس پهیلا نے کیلئے ساؤنڈ وال توڑتے ہوئے (ہولناک آوازیں نکالیں) ۔ اس طرح تحریک کو شدت سے کچل کر اس پر قابو پالیا گیا ۔ شہداء کی لاشوں اور زخمیوں سے بهرے ہوئے فوجی ٹرک سڑکوں اور گلیوں سے تیزی کے ساته نامعلوم مقامات کی طرف روانہ ہوئے ۔ اس دن قم کی شام ، شام الم تهی ، پورے شہر میں جنگ کا سماں بندها ہوا تها ، ۵ جون کی صبح قائد انقلاب امام خمینیؒ کی گرفتاری کی خبر تہران ، مشہد ، شیراز اور دیگر شہروں میں پهیل گئی تو ان شہروں میں بهی قم کی طرح حالات کشیدہ ہوگئے ۔ ورامین اور تہران کے نواح میں واقع قصبوں کے لوگ تہران کی طرف چل نکلے ۔ ورامین چوک پر فوجی ٹینک ، بکتر بند دستے اور مسلح افواج عوام کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے مورچہ بندتهے ۔ انہوں نے عوام کو روک کر ان پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مظاہرین خاک و خون میں غلطان ہوگئے ۔ تہران میں بازار اور شہر کے وسطی علاقوں میں بهی عوام کا جم غفیر نظر آرہا تها جو ’’ موت یاخمینی‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے شاہی محل کی طرف بڑه رہا تها ؛ تہران کے جنوبی علاقوں سے بهی عوام کی کثیر تعداد شہر کے مرکزی علاقے کی طرف چل نکلی ، جن کے آگے آگے جنوبی تہران کے دو بہادر مجاہدین ، طیب حاج رضائی اور حاج اسماعیل رضائی اپنے ساتهیوں کے ہمراہ چل رہے تهے ۔ ان دو مجاہدوں کو چند دن بعد گرفتارکرکے۲ نومبر 1963ء کے دن گولیوں سے بهون دیا گیا اور ان کے ساتهیوں کو بندر عباس کی طرف شہر بدر کر لیا گیا ۔
شاہ کے قریب ترین مصاحب جنرل حسین فردوست نے اپنی یادداشتوں میں لکها ہے کہ تحریک کو کچلنے کیلئے امریکہ کے ممتاز ترین سیکیوریٹی اور سیاسی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی تهیں ۔ فردوست نے ان لمحات میں شاہ ، اس کے درباریوں ، فوج اور ساواکی کمانڈروں کی وحشت زدہ صورتحال بیان کرتے ہوئے لکها ہے کہ شاہ اور اس کے جرنیل تحریک کوکچلنے کا دیوانہ وار حکم دیتے تهے ۔ جنرل فردوست ان دنوں کے ناگفتہ یہ حالات کے متعلق مزید لکهتا ہے : ’’ مخصوص ( شاہی ) گارڈ کماندر( جزل) اویسی سے میں نے کہا:
’’ واحد راہ حل یہ ہے کہ فوج میں جتنے بهی باور چی ، خاکروب اور اسلحہ اٹهانے کی صلاحیت رکهنے والے لوگ ہیں ان سب کو مسلح کردو (۴) یوں فوج کے سپاہی اور شاہی پولیس کے کارندے وسیع پیمانے پر کاروائی کرتے ہوئے عوام کو براہ راست گولیوں کا نشانہ بناکر اور اپنی پوری طاقت استعمال کرکے عوامی تحریک کو کچلنے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس دور کے وزیر اعظم اسدا للہ علم نے اس دن سے متعلق اپنی ڈائری میں شاہ سے مخاطب ہو کر لکها ہے : ’’ اگر ہم پیچهے ہٹ گئے ہوتے تو ایران کے چاروں طرف امن وامان کی صورتحال خراب ہو جاتی اور ہماری حکومت ذلت آمیز شکست سے دچار ہوکر سرنگون ہو سکتی تهی ۔اس موقع پر میں نے آپ ( شاہ) سے یہاں تک عرض کیا تها کہ اگر میں کرسی اقتدار سے محروم بهی ہوجاتا تو آپ مجهے قصور وار ٹهہرا کر تخت دار پر لٹکاتے اور حالات کی ذمہ داری میرے اوپر عائد کرکے ہمیشہ کیلئے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کر سکتے تهے (5) ‘‘ ۔
۵جون کو تہران اور قم میں مارشل لاء نافذ کیا گیا ، لیکن اس کے باوجود اگلے دنوں میں بڑے پیمانوں پر مظاہرے ہوئے جن کا اختتام خونریزی جهڑپوں پر ہو جاتا تها ۔ ۵ جون ۱۹۶۳ ء ایرانی عوام کے اسلامی انقلاب کے آغاز کا دن تها ۔ امام خمینیؒ ۱۹ دن تک قصر جیل میں مقید رہنے کے بعد عشرت آباد کی فوجی چهاؤنی میں منتقل کردئے گئے ۔
۱۵ خرداد کی تحریک کے دودن بعدشاہ نے عوامی تحریک کو ہنگامہ وفساد اور وحشیانہ کاروائیوں سے تعبیر کیا ، نیز اسے سرخ و سیاہ رجعت پسندوں کے گٹه جوڑکا نتیجہ اور ایرانی سرحدوں سے باہر ( مصر کے صدر) جمال عبدالناصر جیسے لیڈروں کو اس کے محرک قرار دینے کی سعی کی گئی ۔ شاہ کے ان دعوؤں کے بنیاد ہونے پرکسی کو شک وشبہ نہیں تها ، شاہ کے مکرر دعوؤ ں کے بر عکس اس تحریک میں بائیں بازو والوں اور کمیونسٹوں کا نہ صرف کوئی کردار نہیں تها بلکہ تودہ پارٹی اور ایران کے دیگر کمیونسٹ عناصر اپنی تحریروں اور مواقف میں ۱۵ خرداد کے واقعات سے متعلق ریڈیو ماسکو اور سوویت اخباروں کے تجزیوں کو بار بار دہراتے رہے ۔ سوویت کمیونسٹ پارٹی ۱۵ خرداد کی تحریک کو شاہ کی ترقی پسنددانہ اصلاحات کے خلاف ایک اندهی اور رجعت پسندانہ کاروائی قرار دیتی تهی ۔ (6) شاہ کے دوسرے جهوٹے دعوی پر بهی ( جو مصری حکومت کی مداخلت پر مبنی تها ) ساواک کی سعی و تلاش کے باوجود کسی نے یقین نہیں کیا ، ۱۵ خرداد کی تحریک کا سو فیصد مستقل ہونا ایسی واضح اور شفاف حقیقیت تهی کہ اس طرح کے پرتوپیگنڈے اس کے صاف چہرے کو داغدار نہیں کر سکتے تهے ۔
قائد تحریک کی گرفتاری اور ۵ جون ۱۹۶۳م عوام کے سفاکانہ قتل عام کے ذریعے ظاہرا تحریک کو کچل دیا گیا ۔ امام ؒ نے زندان میں تفتیش کرنے والوں کے سوالات کے جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے دلیری کے ساته اعلان کیاکہ آپ نے ایرانی (شاہی ) حکومت اور اس کی عدلیہ کوغیر قانونی اور نا اہل سمجهتے ہیں ۔ امام ؒ عشرت آباد کی انفرادی کوٹهڑی میں بهی بے کارنہ رہے بلکہ معاصر تاریخ سے متعلق تصانیف کے مطالعے میں مصروف رہے ، ان میں ایران کی تاریخ مشروطیت سے متعلق کتب اور جواہر لعل نہروکی مصنفہ ایک کتاب شامل تهیں ، امام ؒ کی گرفتاری کے بعد ملک بهر سے علمائے کرام اور عوام کے دیگر طبقات ہمہ گیر سطح پر احتجاج کرتے ہوئے اپنے قائد کی رہائی کا مطالبہ کرنے لگے ۔ ملک کے بلند پایہ علماء کا ایک گروہ احتجاجی طور پر تہران کی طرف علامتی ہجرت کرگیا ۔ قائد انقلاب کو جان سے ماردینے کا خوف عوام کے دلوں میںبڑے پیمامے پر ہلچل پیدا کرنے کاسبب بن چکاتها ، ساواک کے کارندوں نے ہجرت کرکے تہران آنے والے علماء کے ایک گروہ پر ہلہ بول دیا اور ان میں سے بعض علماء کو گرفتار کرکے ایک عرصے کے لئے جیل بهیج دیا گیا ۔ شاہ سمجهتا تها کہ۵ جون کے واقعات ، امریکہ کو دی جانے والی یقین دہانیوں اور اطمینان کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے ہیں ، اس لئے وہ یہ دکها نا چاہتا تها کہ ان واقعات کی اتنی اہمیت نہیں اور حالات معمول کے مطابق اس کے قابو میں ہیں ، دوسری جانب امام ؒ کی گرفتاری کے طول پکڑنے کی وجہ سے عوم کے غم و غصہ کی لہر بڑهتی چلی جارہی تهی ۔اس لئے حکومت نے مجبور ہو کر ۲ اگست ۱۹۶۳ م کے دن آپؒ کو جیل سے تہران کے علاقہ داودیہ کے ایک گهر میں منتقل کیاجو سکیوریٹی فورسز کی نگرانی میں تها۔ تہران کے عوام قائد انقلاب کی منتقلی کی خبر ملتے ہی داودیہ کی طرف امڈ پڑے ؛ لوگوں کے اجتماع کو چند گهنٹے نہیں گذرے تهے کہ حکومت نے ان کو منتشر کیا اورفوج نے علنیہ طور پر گهر کا محاصرہ کرلیا۔ ۲اگست کے شام کو شائع ہونے الے سر کاری اخبارات نے سرکاری حکام کی مراجع تقلید سے مفاہمت پر مبنی جهوٹی خبر شائع کی ، اس خبر کی اور اس کی تردیدکے بارے میں اطلا ع حاصل کرنا امام ؒ کیلئے مشکل تها ۔ لیکن دیگر علمائے کرام نے اپنے بیانات کے ذریعے ( حکومت کے ساته ) کسی قسم کی مفاہمت کی تردید کی ، ان میں سے بهی آ یت اللہ العظمیٰ مرعشی نجفیؒ کے بیان میں جو بہت زیادہ شدید اللحن تها ، حقائق سے پردہ اٹها یا گیا تها۔ ان واقعات کے بعد حکومتی کارندوں کی نگرانی میں اما م کو تہران کے محلہ قیطریہ کے ایک گهر میں منتقل کیا گیا جہاں آپؒ ۷ اپریل ۱۹۶۴م میں رہائی پاکر قم واپس آنے تک محاصر ے میں رہے ۔
مارچ ۱۹۶۴ کے آغاز تک شاہی حکومت یہ باور کرانے کی سعی کرتی رہی کہ گذشتہ سال کے واقعات طاق نسیان میں رکه دیئے گئے ہیں ، اس کا یہ خیال تها کہ۱۵ خرداد کا واقعہ عوام کے لئے عبرت ناک ثابت ہواہے اور مجاہدین خاموش ہوگئے ہیں ۔۔
۷ اپریل ۱۹۶۴ کو شام کے وقت بغیر کسی اطلاع کے امام ؒ کو رہا کرکے قم پہنچا یاگیا ۔ یہ خبر ملتے ہی پورے شہر میں عوام کے اندر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ؛ کئی دن تک مدرسۂ فیضیہ میںباشکوہ جشن کا اہتمام کیا گیا ۔ امام ؒ کی رہائی کوتین دن ہورہے تهے کہ آپ ؒکے انقلا بی خطاب نے حکومتی پروپیگنڈوں اور نظریات پر مہر بطلان ثبت کیا ۔ امام ؒ نے اس خطاب میں فرمایا: ’’آج جشن منانے کا کوئی جواز فراہم نہیں ہوتا ، جب تک قوم زندہ ہے ۱۵ خرداد کے غم میں وہ اشکبار رہے گی ‘‘ قائد انقلاب نے اپنے خطاب میں تفصیل کے ساته ۱۵ خرداد کی تحریک کے پہلؤں کو بیان کرتے ہوئے اخبارات کی اس جهوٹی خبر کے جواب میں جس کے مطابق آپؒ کی حکومت کے ساته کوئی مفاہمت ہوئی ہے فرمایا: ’’ انہوں نے اداریئے میں لکهاتها کہ علمائے کے ساته مفاہمت ہوئی ہے اور علمائے کرام انقلاب سفید شاہ و ملت سے موافق ہیں ! کونسا انقلاب ؟ کو نسی ملت ؟خمینیؒ کو اگرسولی پر بهی چڑها دیں تووہ مفاہمت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ، سنگینوں کے زور سے اصلاحات نافذ نہیں کی جاسکتیں (7) ۔
امام ؒ کی رہائی کے بعد ساواک فورس م علمائے کرام اور مراجع عظام کے درمیان اختلافات پیداکرکے جہادی قوتوں کے منتشر کرنے کا حربہ آزمانے لگی ۔ ۱۵ اپریل ۱۹۶۴ م کو امام خمینیؒ نے مسجد اعظم قم میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’ اگر کسی نے میری توہین کی ،مجهے تهپڑ رسید کیا ، میری اولاد کے تهپڑ مارے تو خداکی قسم میں اس بات پہ راضی نہیں ہوں کہ کوئی آگے آکر میرا دفاع کرے ۔ مجهے معلوم ہے کہ بعض لوگ نادانی میں یاجان بوجه کر اس معاشرے میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ ۔۔ میں یہاں بیٹه کر تمام مراجع عظام کے ہا تهوں کو بوسہ دیتا ہوں ، یہاں (قم ) کے تمام مراجع ، نجف اشرف ، دیگر شہروں ، مشہد ، تہران اور جہاں جہاں بهی علمائے اسلام موجود ہیں میں ان سب کے ہاتهوں کو چومتا ہوں ، ہدف ان باتوں سے بڑه کر کوئی اور ہے ، میں تمام مسلمان اقوام اور دنیا کے مشرق و مغرب میں بسنے والے تمام مسلمانوں کی طرف اخوت اور بهائی چارے کا ہاته بڑها تا ہوں (۲۸ ) امام خمینیؒ نے اپنے اس خطاب میں بهی شاہ اور اسرائیل کے خفیہ تعلقات کو بے نقاب کرتے ہوئے آواز بلند کی : ’’ اے لوگو ،دنیا والو! جان لو کہ ہماری قوم اسرائیل کے ساته معاہدے کی مخالف ہے ، ( معاہدہی کرنے والے ) ہمارے عوام نہیںہیں ، علمائے کرام نہیں ہیں ، ہمارے دین کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اسلام دشمنوںسے مفاہمت نہ کریں ‘‘ امام ؒ نے شاہ کو مردک ( پست آدمی) کے لفظ سے یاد کرتے ہوئے فرمایا: غلط نہ سمجهو! اگر خمینیؒ تم لوگوں سے ساز باز کرسکتا ہے تو امت مسلمہ ساز باز کرے گی ۔ غلط نہ سمجهو ! ہم اسی مورچے میں بیٹهے ہوئے ہیں جس میں ہم پہلے سے ہی موجود تهے ۔ ہم ہر قسم کی زور آ زمائی کے مخالف ہیں ( ہماری) پیاری قوم شدت کے ساته اسرائیل اور اسرائیلی ایجنٹوں سے نفرت کا اظہار کرتی ، وہ ان حکومتوں سے متنفر اور بے زارہے جو اسرائیل کے ساته گٹه جوڑ کرتی ہیں۔ (8 ) ‘‘
۵ جون ۱۹۶۴ء کو ۱۵ خرداد کی تحریک کی پہلی سالگرہ کے موقع پر امام خمینیؒ اور دیگر مراجع عظام کا مشترکہ بیان اور حوزہ ہائے علمیہ کے علیحدہ اعلامئے جاری ہوئے اور اس دن عام سوگ کا اعلان کیا گیا(9) ۔ جون کی ۱۹۶۴م میں عظیم مجاہد آیۃ اللہ طالقانی اور نہضت ( تحریک) آ زادی ایران کے سرکردہ رہنما انجینئر مہدی بازرگا ن پر جنہوں نے ۵جون کی تحریک کی حمایت کی تهی شاہ کی فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلاکر طویل مدت قید کی سزا سنائی گئی ۔ امام خمینیؒ نے ایک بیان کے ذریعے خبردار کیا : ’’ رائے دہندگان کو ایک سخت آزمائش کا نتظار کرنا پڑے گا ۔ ‘‘ امام خمینیؒ نے یہ تجویز دی کہ تحریک کے مقاصد کے حصول کیلئے ایرانی علمائے کرام کو چاہئے کہ وہ پورے ملک میں منظم اور ہفتہ وار اجلاسوں کے ذریعے عوامی تحریک کی رہنمائی کریں ۔
فٹ نوٹس:
1۔ صحیفہ امام ؒ ، ج۱ ،ص۱۷۹۔
2 ۔ صحیفہ امام ، ج۱ ،ص ۲۱۳۔ ۲۱۴ ۔
3 ۔’’ ظہور و سقوط سلطنت پہلوی ‘‘ ج ۱ ، ص ۵۱۰ ۔
4 ۔ گفتگو ہائے من باشاہ ‘‘ امیر اسد اللہ کی خفیہ یاد داشتیں ۔
5 ۔ ریڈیو ماسکو نے ۱۶ خرداد ( ۶ جون) کی رات کو ۱۵ خرداد کی قومی اسلامی تحریک پر اس طرح تبصرہ کیاہے : ’’ ایران کے رجعت پسند عناصر نے جو اس ملک کی اصلاحات بالخصوص اصلاحات ارضی سے ناراض ہونے کے ساته ساته معاشرتی حقوق میں اضافہ اور ایرانی خواتین کی آزادی میں پیشرفت کو اپنی خواہشات کے منافی سمجهتے ہیں ، آج تہران ، قم اور مشہد کی سڑکوں پر جلوس نکالا ، ایک گروہ کی طرف سے ہنگامہ کیا گیا جس کامقصد ان اصلاحات کی مخالفت تهی جو حکومت ایران کی طرف سے نافذ کی جارہی یا انکے پروگرام مرتب کئے جارہے ہیں اس گروہ کے قائدین اور اصل محرکین بعض مذہبی رہنما اور جعت پسند عناصر ہیں ، انہوں نے بازاروں میں آگ لگا دی اور بعض دکانوں پر دها وابول کر ان کے سامان لوٹ لئے گئے ،کاروں اور بسوں کو نقصان پہنچایا گیااور بعض سرکاری اداروں پر بهی حملہ کیا گیا ۔
سوویت یونین کے ترجمان اخبار ’’ ایزو و ستیا‘‘ نے ۱۷ خرداد ۱۳۴۲ ه ش (۱۷جون ۱۹۶۳ء ) کی اشاعت میں لکها : ’’ ۔۔۔۔ تہران مشہد ، قم اور رے میں بعض رجعت پسند مسلمان علماء کی شہ پر ہنگامے اور فسادات ہوئے ، فسادی عناصر نے ایک روایتی عزاداری کی تقریب سے فائدہ اٹهاتے ہوئے حکومت کی ارضی اصلاحات کے خلاف مظاہرہ کیا، اس دوران کچه متعصب اور پسماندہ ذہن نوجوانوں نے بعض دکانوں پرحملہ کیا اور چندکاروں کو الٹادیا ‘‘ ۔
سوویت یونین سے شائع ہونے والے جریدہ ‘‘ عصر جدید ‘‘ نے بهی لکها: ’’ خمینی ؒ اوراس کے حامیوں نے مؤمنوں کو حکومت کے خلاف ورغلا کر عورتوں کے مساوی حقوق کو خوب اچهالا ، ان کے پروپیگنڈوں سے متأثر ہو کر افراد جو تعصب کی وجہ سے اندهے ہوگئے ہیں سڑکوں پر نکل آئے اور ہنگامہ و فساد کرنے لگے ‘‘ !!
مأخذ : بررسی و تحلیل از نہضت امام خمینیؒ ، ج ۱ ص ۵۱۵۔
6 ۔ کوثر ۔ انقلاب اسلامی کے واقعات کی تفصیل ‘‘ ج ۱ ص ۱۰۱۔
7۔ مذکورہ مأخذ ، ص ۱۱۲۔
8 ۔ ’’ صحیفہ امام ؒ ‘‘ ج ۱ ص ۲۸۲ ۔ یہ بیان مندرجہ ذیل علمائے کرام کے دستخطوں کے ساته جاری ہوا : ’’ روح اللہ موسوی خمینی ؒ ، محمد ہادی حسینی میلانی ، شہاب الدین نجفی مرعشی اور حسن طباطبائی قمی ‘‘ ۔
۹ ۔ ’’ صحیفہ امام ؒ ‘‘ ج ۱ ص ۲۸۲ ۔ یہ بیان مندرجہ ذیل علمائے کرام کے دستخطوں کے ساته جاری ہوا : ’’ روح اللہ موسوی خمینی ؒ ، محمد ہادی حسینی میلانی ، شہاب الدین نجفی مرعشی اور حسن طباطبائی قمی ‘‘ ۔