امام خمینی(رہ) پورٹل کے مطابق خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران کے ڈائریکٹر جنرل تقی صادقی نے کہا ہے کہ ایران کو فخر ہے کہ اس کے میزائل آج تل ابیب پر برس رہے ہیں۔ غزہ کے لوگوں نے پهتروں اور کنکریوں سے مقاومت کا آغاز کیا، آج ان کے پاس راکٹ آگئے ہیں۔ اگر غزہ کے لوگ مزاحمت نہ کرتے تو آج وہ خود بهی تباہ ہوجاتے اور مغربی کنارے پر آباد فلسطینی بهی نہ رہتے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں البصیرہ کے زیر اہتمام "اہل فلسطین کا قتل عام اور ہماری ذمہ داریاں" کے عنوان سے منعقدہ مذاکرہ سے خطاب کے دوران کیا۔
علی صادقی نے کہا کہ ہمارے درمیان دو تجربات موجود ہیں، ایک جمال الدین افغانی کا تجربہ ہے، جمال الدین افغانی نے حکمرانوں کی اصلاح کے ذریعے سے انقلاب لانے کی کوشش کی۔
دوسرا تجربہ امام خمینی(رہ) کا ہے، جنہوں نے عوام کے ذریعہ انقلاب برپا کیا، یعنی انہوں نے عوام کو بیدار کیا کہ وہ تبدیلی کیلئے خود اٹه کهڑے ہوں۔ اگر ہم صحیح تجزبہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ امام راحل کا تجربہ کامیاب ہوا۔
خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تها کہ مسلمانوں میں جذبہ شہادت کوٹ کوٹ کر بهرا ہوا ہے لیکن اس جذبہ کو غلط رخ دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان ممالک میں مسلمان دوسرے مسلمان کا گلا کاٹ رہے ہیں، جس کا فائدہ اسرائیل کو پہنچ رہا ہے، اگر جذبہ شہادت کو اسرائیل اور امریکہ کیخلاف استعمال کیا جاتا تو آج یہ صورتحال نہ دیکهنا پڑتی۔
ان کا کہنا تها کہ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بیان نے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایک ہیں، دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یاد رکهنا چاہیے کہ مسئلہ فلسطین کا ایک ہی حل ہے کہ ہم مقاومت کریں۔ امریکہ عالم اسلام کو تباہ کرکے دم لے گا۔ لٰہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کا مقابلہ کریں۔ امریکہ کو شیعہ سنی کوئی قبول نہیں، مصر کی صورتحال نے سب کچه واضح کر دیا۔
دیگر ذرائع کے مطابق حماس کو دفاع کے لیے ’’فجر‘‘ راکٹ ایران نے فراہم کیے ہیں، ہم فلسطینیوں کی ہر سطح پر مدد کرتے رہیں گے، عالم اسلام کی بہتری کا انحصار عوام کی بیداری اور عوامی نمائندوں پر مشتمل حکومتوں کی تشکیل پر ہے۔ یہ بات پاکستان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ثقافتی نمائندہ ڈاکٹر تقی صادقی نے علمی تحقیقی ادارہ البصیرہ کے زیر اہتمام ’’اہل فلسطین کا قتل عام اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر منعقدہ مجلس مذاکرہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
مجلس مذاکرہ کی صدارت البصیرہ کے صدر نشین اور ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ثاقب اکبر نے کی۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم اسرائیل کو ایک ناجائز اور استعماری مقاصد کی آلہ کار ریاست سمجهتے تهے۔ علامہ اقبال بہت پہلے سے برطانوی سامراج کی اس سازش کو بهانپ گے تهے اور انہوں نے اسرائیل کے قیام کے منصوبے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ قائد اعظم نے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی اسرائیلی وزیراعظم کی خواہش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بهر کا کوئی مسلمان مرد اور عورت اسرائیل کو ایک جائز ریاست سمجهنے سے پہلے جان دے دینا پسند کرے گا۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ پاکستان کے بانیوں کی منشا کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دے۔