کلمہ "شہادة" لغت میں گواہی دینے کو کہتے ہیں اور شہید گواہ کو کہتے ہیں۔ لیکن اصطلاح میں پاکیزہ مقصد کے لئے علم و آگاہی اور نزدیک ہونا، بہترین شکل میں محبوب اور معشوق کا وصال ہے۔ شہادت کی راہ میں ایک معنوی اور روحانی عمل، قربانی اور الہی کامیابی ہے۔ شہادت کا سلسلہ حضرت آدم صفی اللہ (ع) سے شروع ہوا اور حضرت خاتم الانبیاء (ص) پر جا کر کمال کو پہونچا۔ جب خداوند عالم نے حضرت آدم (ع) کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا تو انسانی خلقت کا آغاز ہوگیا۔ اسی طرح جب قابیل نے ہابیل کا قتل کیا تو اسی وقت سے شہادت کا آغاز ہوگیا گویا خلقت بشری کے آغاز ہی سے شہادت اور شہید ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس سلسلہ شہادت اور الہی ہدیہ کو رسول اکرم (ص) کے چھوٹے نواسے حضرت سید الشہداء (ع) نے ماہ محرم میں کربلا کے میدان میں روز عاشور نقطہ کمال تک پہونچایا اور اسے معراج عطا کردی۔ کربلا کا ہر شہید خواہ اعزہ میں ہو یا اصحاب و انصار میں خدا کی راہ میں اپنی مرضی سے جان نچھاور کرنے کو تیار رہا اور آخر تک جان نثار کرکے ابدی زندگی اور دائمی حیات کا سودا کرلیا۔
شہادت، ہلاکت اور نابودی نہیں ہے بلکہ جاودانی زندگی، دنیاوی اور اخروی سعادت اور ابدی حیات ہے نیز مادی حصار کو توڑ کر روحانی باغات اور معنوی عالیشان قصروں کی سیر کرنا اور قرب الہی کی لذتوں سے مالامال ہونا ہے۔ شہادت قرآن کریم کی روشنی میں ارشاد ہوتا ہے:
"و لا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربہم یرزقون" خدا کی راہ میں جان دینے والوں کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس رزق پاتے ہیں۔ دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
"و لا تقولوا لمن یقتل فی سبیل الله اموات بل احیاء و لکن لا تشعرون" اللہ کی راہ میں مرنے والوں کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے، یعنی تم اس موت کی لذت کا ادراک کرنے سے عاجز ہو۔
شہادت کے دو رکن ہیں:
1۔ فی سبیل اللہ (خدا کی راہ میں ہو)۔ یعنی انسان کا مقصد پاک و پاکیزہ ہو اور اسی کے لئے اپنی جان فدا کرے۔
2۔ علم و آگہی کے ساتھ اپنے ارادہ اور اختیار سے ہو یعنی شہادت پاکیزہ مقصد کی راہ میں علم و آگہی کے ساتھ ساتھ اپنے اختیار سے ہو نیز ذاتی اغراض سے منزہ و مبرہ ہے۔
اگر یہ دونوں شرطیں پائی جاتی ہیں تو شہید قابل قدر، لائق ستائش اور قابل فخر ہے۔ اور ایک شجاعانہ عمل شمار ہوتی ہے۔ شہادت کے بارے میں رسول خدا (ص) کا ارشاد ہے: شہادت بلند ترین اور شریف ترین موت ہے۔ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: اکرم الموت القتل؛ بہترین موت خدا کی راہ میں قتل ہوجانا ہے۔ نیز ارشاد فرماتے ہیں: لالف ضربة بالسیف احب الی من میته علی فراش؛ اگر میرے سر پر ہزار ضرب پڑے اور میں مرجاؤں تو یہ میرے نزدیک بستر بیماری پر مرنے سے بہتر ہے۔
حضرت امام حسین (ع) جب کربلا کی طرف روانہ ہو رہے تھے تو آپ نے کچھ اشعار پڑھے:
فان تکن الدنیا تعد نفیسہ ، فدار ثواب اللہ اعلی و انبل
اگر چہ دنیا حسین اور محبوب ہے اور انسان کو اپنی طرف مائل کرتی ہے لیکن ثواب الہی کا گھر (آخرت) دنیا سے کہیں زیادہ حسین اور اعلی ہے۔
و إن تکن الاموال للترک جمعہا، فما بال المتروک بہ الحر یبخل
اگر مال کو دنیا ہی میں چھوڑ کر جانا ہے تو پھر انسان اسے راہ خدا میں خرچ کیوں نہ کرے۔
و أن تکن الابدان للموت انشات، فقتل امرء بالسیف فی اللہ اجمل
اور اگر ہمارے یہ جسم مرنے ہی کے لئے خلق ہوئے ہیں تو پھر راہ خدا میں ٹکڑے ٹکڑےکیوں نہ ہوں۔
حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: شہادت اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے لہذا اس کا شکر ادا کرنا اور قدردانی کرنی چاہیئے۔ اور حضرت امام حسین (ع) نے بھی ایثار اور شہادت طلبی کا راز دین کا احیاء اور اسلامی درود کا تحفظ بتایا ہے، اور آپ (ع) خود ہی فرماتے ہیں:
ان کان دین محمد لم یستقم، الا بقتلی فیا سیوف خذینی
اگر محمد کا دین کا احیاء میری موت پر موقوف ہے تو اے تلوار آؤ اور مجھے ٹکڑے ٹکڑے کرو۔
اولیائے الہی شہادت کو بلا شرط طلب کرتے ہیں یعنی موت کو شہادت کی شکل میں چاہتے ہیں اور اس کے درمیان کسی قید و شرط کا ذکر نہیں کرتے۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: ہم خدا سے ہیں اور خدا ہی کی طرف پلٹ کرجانا ہے۔ یہ خدا کا ایک جلوہ ہے۔ سارا عالم اس کی طرف پلٹ کرجائے گا اور کتنا اچھا ہوتا کہ انسان کا پلٹنا اختیاری اور انتخابی ہوتا اور انسان خدا کی راہ میں شہادت کا انتخاب کرے اور شہادت کو اسلام کے لئے انتخاب کرے ۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں: بستر پر مرنا موت ہے اور کچھ نہیں لیکن خدا کی راہ میں جان دینا شہادت ہے اور انسانوں کے لئے سرفرازی و سربلندی کا مقام ہے۔
اسلام کے بارے میں امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: اسلام پر عصر و زمانہ میں شہیدوں اور اولیائے الہی کے خون سے پروان چڑھا ہے۔
ابوالکلام آزاد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امام حسین (ع) شہادت طلبی کے جذبہ کے ساتھ قیام کا آغاز کرنے والے انسان ہیں اور آپ نے اپنے اعزہ و اقرباء، دوست احباب اور چاہنے والوں کے منع کرنے کے باوجود قیام کیا کیونکہ امام حسین (ع) ظالم و جابر سے سودا کرنے والے انسان نہیں تھےبلکہ آپ مرد میدان اور شہادت تھے، آپ حق کی راہ میں قربان ہونے کو عزت سمجھتے تھے۔ آپ کا اس دور کے ناگفتہ بد حالات میں زندگی گذارنا مشکل تھا۔ آپ ظلم و بربریت، درندگی اور حیوانیت کے ماحول میں گوشہ عافیت میں بیٹھ کر پرسکون زندگی گذارنا نہیں چاہتے تھے، آپ عافیت طلبی کے خوگر اور عادی نہیں تھے بلکہ قومی مفاد اور مفاد عامہ اور عمومی مصلحت پر نظر رکھتے تھے اور الہی اور اسلامی اصول و آئین کے زیر سایہ امن و امان کے خواہاں، حق و انصاف کے طالب تھے اور پورے معاشرہ کو ضلالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر نور الہی کی جانب لانا چاہتے تھے۔ اگر انسان کی یقینی سرنوشت موت ہی ہے تو کی بہتر کہ راہ خدا میں مقابلہ اور جنگ کرکے مرجائے لیکن ذلت و رسوائی برداشت نہ کرے اور معاشرہ کے امن و امان پر آنچ آنے نہ دے۔ امام حسین (ع) نے اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں خدا کے لئے قربان کردیا اور شہادت نامی موت کو گلے لگایا تا کہ خدا کی توحید، الوہیت اور اس کا دین بچ جائے۔ یہی وجہ ہے کے اس واقعہ کربلا کو تقریبا 1400/ سال ہورہے ہیں لیکن یہ المناک اور دردناک واقعہ اسی طرح تازہ اور باقی ہے کیونکہ اب تک دنیا میں ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا جو انسانی اقدار اور اصول کی پاستداری کرتا ہو۔ یہ واقعہ اتنے برسوں کے بعد بھی تازہ ہی اور وہی آب و تاب ہی جو 61/ ہجری میں تھی کیونکہ اس کی یاد حیات آفریں، زندگی بخش اور ہدایت بار ہے اور اس کے نور کی شعاعیں مدھم نہیں پڑی ہیں۔
اسلام میں شہادت کا قانون دیگر ادیان مذاہب اور مکاتب فکر کے قانون سے فرق کرتا ہے۔ شہادت اسلام میں بہت بڑی کامیابی اور عظیم عروج اور خدا کی دی ہوئی انمول نعمت ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ شہادت کی وجہ سے خدا کی راہ میں شہید ہونے والا اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والا زنده و جاوید ہوتا هے چونکہ اس نے حق و عدالت کی راہ میں قربان دی ہے اور صداقت اور امانت کی حفاظت میں اپنے سر و تن کی بازی لگائی ہے اور خود کو راہ خدا یعنی اسلام، حق و حقیقت ، صدق و صفا، انصاف و عدالت، ایمانداری، عزت و ناموس کی پاسداری کی راہ میں قربان کرکے رہتی دنیا تک کے لئے زنده و جاوید بنالیا ہے اور قیامت تک کے لئے شہداء اور صالحین کی صف میں شمار کرالیا ہے کیونکہ شہادت موت اور نیستی نہیں ہے بلکہ ایک دوسری حیات اور بہترین زندگی اور نوانیت ہے۔
خداوند عالم بحق محمد (ص) و آل محمد(ع) ہم سب کو شہادت کے درجہ پر فائز کرے اور اخلاص عمل کی توفیق عنایت کرے۔ آمین۔
حوالہ:
قرآن کریم
اقتباسات از مجموعہ مقالات دومین کنگرہ بین المللی امام خمینی
و اقتباس از مقالات دیگر۔