شہید نامجوی

وہ شہید جس کو شاہ نے بلیک لسٹ میں ڈال دیا

شہید نامجوی ہمیشہ کوشش کیا کرتے تھے افسری یونیورسٹی کو فیضیہ سے ملائیں

قرآن و عترت نیوز کی رپورٹ کے مطابق:شہید سید موسی نامجوی 26 آذر کو بندر شہر کے کولیور علاقہ میں پیدا ہوئے تھے وہ فرانسوی اور انگریزی زبان پر بھی مسلط تھے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے دوران افسریہ کالج میں فیکلٹی ممبر تھے اسلامی انقلاب سے پہلے شہید نامجوی امام بیانات کو کیسٹ اور اعلامیہ کی شکل میں منتشر کرتے تھے۔

اسلامی انقلاب کے بعد افسر کے عہدہ پر فائزہوئے اور شہید چمران کی شہادت کے بعد فرنٹ لائن میں امام کے نمائندہ کی حیثیت سے خدمت کی اس کے بعد با ہنر کی اسمبلی میں وزیر دفاع کی ذمہ داری سنبھالی اسی دوران ان کی اور ان کے بعض دوسرے دوستوں کی کوششوں سے سپاہ پاسداران انقلاب کی بنیاد رکھی گی۔

شہید نامجوی کی بہن شہید اور امام کی پہچان کے بارے میں فرماتی ہیں  میرے والد قلہک میں ٹیلیفون ایکسچینج کے انچارچ تھے ایک دن ان کو رپورٹ دی گئی کہ روغنی نام شخص کے گھر کا ٹیلیفون خراب ہے جس میں امام سکون پذیر ہوئے ہیں میرے والد ٹیلیفون ٹھیک کرنے ان کے گھر گئے اور اپنے مرجع تقلید ،اپنے رہبر سے ملاقات کی وہ اس کے بعد ہر دن ایک بار امام رہ کی ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے اور جب  واپس آتےامام کی زندگی کے بارے میں ہمیں بتاتے تھے اور امام سے اپنی محبت کا اظہار کیا کرتے تھے امام کے متعلق ان کی باتیں ہمارے دلوں پر اس قدر اثر انداز ہوئیں کہ سید موسی نے والد سے امام کے دیدار کا اظہار کیا اسی ملاقات نے ان کو امام کے قریب کیا  اور وہ اپنی جوانی کے دوران متعدد بار امام سے ملنے گئے ان ملاقاتوں سے وہ بہت متاثر ہوئے گویا ان کو تازہ روح ملی ہو وہ اس قدر امام کے قریب ہو گے کہ امام ان کو سید موسی کے نام سے خطاب کیا کرتے تھے۔

شہید نامجوی ہمیشہ کوشش کیا کرتے تھے افسری یونیورسٹی کو فیضیہ سے ملائیں اس کام کے لئے بہت تلاش کی حا لانکہ شاہ کی حکومت اپنے افسروں کو مذہبی لوگوں سے دور رہنے کی تاکید کرتی تھی لیکن شہید نامجوی مخفی طور پر ان جلسات میں شرکت کیا کرتے تھے جن کے نتیجہ میں انھوں شہید منتظری اور شہید عباسپور کی راہنمائی میں ایک فوجی تنظیم تشکیل دی اور لوگوں کو عضویت دینا شروع کیا۔

اس تنظیم کے کچھ قوانین تھے جن کی رعایت کرنا سب کے لئے ضروری تھا اس تنطیم کا کوئی نام نہیں تھا کسی کو اس تنظیم کے بارے میں لکھنے کا اختیار نہیں تھا اسی وجہ سے بہت سارے لوگ شہید نامجوئی کو پہنچاتے تھے کیونکہ وہ ایک گمنام تنظیم میں کام کرتے تھے اسی وجہ سے وہ تنظیم باقی بھی رہی۔

یہ تنظیم امام کے بیانات اور ان کی تقاریر کو ملک کے اندر اور بیرونی ممالک میں بھی منتشر کیا کرتی تھی انھوں نے ملک کے اکثر نقاط میں افراد کا انتخاب کیا ہوا تھا اسی وجہ سے فوج میں ہونے والی بغاوتیں ناکام ہو گئی اسلامی انقلاب کے بعد شہید نامجوی کا نام بھی شاہ کی بلیک لیسٹ میں تھا اگر انقلاب نہ ہوتا ان کو یقینی طور پر پھانسی دی جاتی۔

امام خمینی رہ نے شہید نامجوی اور ان کی ساتھیوں  کی شہادت پر اپنے پیغام میں فرمایا:بڑی دکھ اور المناک خبر موصول ہوئی کہ  فضائیہ فوج کا ایک طیارہ حادثہ کا شکار ہو گیا جس میں زخمی اور شہدا کو لایا جارہا تھا جب کہ اس میں انقلاب کی اہم شخصیات موجود تھیں جن میں میجر جنرل ولی اللہ فلاحی،بریگیڈیر جنرل نامجوئی،بریگیڈیر جنرل فکوری اور کلاہدوز صاحب موجود تھے یہ لوگ انقلاب کے خادم اور اپنے وعدہ کے پائبند  تھے کہ انقلاب اور اس کے بعد دل و جان اور بہادری  سے اپنے ملک کی خدمت کریں گے اور اسلامی ملک کی خدمت کرتے ہوئے صدائے حق کا لبیک کہا اور اپنے رب کی طرف پلٹ گے  امید وار ہوں کہ اسلام کی خدمت کرنے کے بعد اپنے رب کے سامنے سرخرو ہوں گے اور ان پر اللہ کی خاص رحمت ہو گی۔


 

ای میل کریں