انقلاب اسلامی، بے مقصد دین کے مدمقابل

انقلاب اسلامی، بے مقصد دین کے مدمقابل

ہم دنیا کو اپنے تجربات سے روشناس کرائیں گے

انقلاب اسلامی کے اہم اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے دین کو انفرادی زندگی تک محدود کرنے کے نظرئیے کے خلاف جہاد کر کے اس نظرئیے گوشہ تنہائی میں پھینک دیا۔ مذکورہ باطل نظرئیے کی ترویج درحقیقت ''بے مقصد دین'' کی ترویج ہے۔  امام خمینی ؒ نے ادیان الٰہی بالخصوص اسلام کے پیغام کا صحیح تعارف کرایا اور اس گھناؤنی سازس سے پردہ اٹھا کر عالمی سطح پر لوگوں کو اس کے پس پردہ عناصر کے خلاف متحد کیا۔ بے مقصد سامراجی دین کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکی اسلام کے مقابلے میں خالص محمدی ؐ اسلام کے اصلی چہرے کا خاکہ پیش کرنا امام خمینی ؒ کے موثر اقدامات میں سے ہے۔

  امام خمینی ؒ کا یہ اقدام ایک طرف سامراجی طاقتوں اور ان کے اندرونی کارندوں کے مفادات کیلئے خطرہ تھا، دوسری طرف ان لوگون کی طبیعت کے بھی خلاف تھا جو خراج لینے کے حامی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اندر اور باہر دونوں جگہ ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ امام خمینی ؒ نے اس ردعمل کے مقابلے میں ہمیشہ انقلاب اسلامی اور اسلامی پیغام کے عالمی ہونے کی بات کی اور انبیا کی تحریک کے فلسفے کی تشریح کے ضمن میں علی الاعلان فرمایا کہ انقلاب اسلامی انبیا کی تحریک ہی کا سلسلہ اور ایک عالمی تحریک ہے:

   ''اسلام کا تعلّق کسی خاص گروہ سے نہیں۔ اسلام انسانیت کیلئے آیا ہے نہ فقط مسلمانوں یا ایران کیلئے۔ انبیا تمام انسانوں کیلئے مبعوث ہوئے ہیں اور پیغمبر اسلام ؐ تمام انسانوں کیلئے آئے ہیں... ہم نے جو تحریک چلائی ہے وہ اسلام کیلئے ہے۔ جمہوریہ، اسلامی جمہوریہ ہے۔ تحریک صرف اسلام تک محدود نہیں بلکہ اسلامی ممالک تک بھی محدود نہیں ہے۔ اسلامی تحریک انبیا ؑ کی تحریک ہی کا تسلسل ہے۔ انبیا کی تحریک کسی خاص علاقے کیلئے نہ تھی۔ پیغمبر اکرم ؐ عرب ہیں لیکن آپ ؐ کی دعوت صرف خطّہ عرب تک محدود نہ تھی، بلکہ آپ ؐ کی دعوت پوری دنیا کیلئے ہے''

(صحیفہ امام، ج ١٠، ص ١١٥)

   امام خمینی ؒ کے ذریعے دنیا کے گوشے گوشے میں مسلمان قوموں کی بیداری بالخصوص اسلامی انقلاب کے عالمی پیغام کے بارے میں محروم ومستضعف قوموں کے افکار میں تبدیلی نئے استعمار جو اس کوشش میں تھا کہ قوموں کو خواب غفلت میں رکھے اور دین کو معاشرے کیلئے افیون یا زیادہ سے زیادہ انفرادی عبادت کے دستور العمل ثابت کرے، پر کاری ضرب تھی۔ یہ ضرب اس بات کا باعث بنی کہ یورپ کی بڑی حکومتوں، امریکہ اور صیہونزم نے دنیا بھر میں بہت بڑا سرمایہ ایسے تحقیقاتی مراکز کے قیام میں لگایا جن میں مشرق اور اسلام کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ ہوتا تاکہ دنیا بھر میں اس انقلاب کی روک تھام اور اسے ناکام بنانے کے طریقہ ڈھونڈ کر عملی اقدامات کرسکیں۔

      امریکہ کو انقلاب اسلامی کے عالمی پیغام سے اس قدر شدید خطرہ لاحق تھا کہ ریگن کی حکومت میں امریکی وزیر جنگ ''کیسپیروئن برگر'' نے ٢٣ اکتوبر ١٩٨٧ ء کو ایران پر مسلّط کردہ عراق کی جنگ میں عراقی حکومت کی حمایت کی علامت کے طورپر خلیج فارس میں امریکی فوجوں کی طرف سے ایک ایرانی کشتی پر حملے کے بعد امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے نمائندہ اجلاس میں اس حملے کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ایرانی قوم کو تباہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا: ''بائیکاٹ کو جاری رکھتے ہوئے ایران کی جنگی صلاحیت کو ختم کردینا چاہیے اور حقیقت میں ایرانی قوم کو تباہ کردینا چاہیے!''

   انقلاب اسلامی ایران کے مقابلے میں امریکہ کے اس ردعمل کا تعلّق سامراجی طاقتوں کے تسلّط سے پاک عالمی نظام کی راہ ہموار ہونے کہ جو قوموں کے افکار پر امام خمینی ؒ کے نظریات کے اثرانداز ہونے کا نتیجہ ہے، کے ساتھ ہے۔ امریکی صدر کی جانب سے نیوورلڈ آڈر اور اس ملک کے جاسوسی کے ادارے "CIA" کے ڈائریکٹر کی جانب سے کھلی دھمکی کہ ''پوری دنیا میں ''سی آئی اے'' اپنے لیے مداخلت کا حق محفوظ رکھتی ہے اور امریکہ دنیا بھر میں جہاں بھی ضروری سمجھے لشکرکشی کرسکتا ہے''٥٣؎ اسی زمرے میں آئی ہے۔ اس کے علاوہ ١٩٩٥ ء سے امریکی کانگریس نے ٢٠ ملین ڈالرز کا سالانہ بجٹ امریکی حکومت کو دیا تاکہ اسے اسلامی حکومت کا تختہ الٹنے سے متعلق اقدامات پر خرچ کیا جائے۔

   واضح ہے کہ اس مسئلے کا تعلّق صنعتی دنیا کی زندگی سے ملانا اسلامی انقلاب کے چہرے کو مسخ کرنے کا ایک تشہیراتی ہتھکنڈہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی انقلاب نے قوموں میں اثر ورسوخ اور دنیا میں بیداری پیدا کر کے مغرب کہ جو اس انقلاب کو اسلامی بنیاد پرستی کا نام دیتا ہے بالخصوص امریکہ کے ناجائز مفادات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

   امام خمینی ؒ جو امریکہ اور تمام سامراجی طاقتوں کی گہری شناخت رکھتے تھے ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ مستضعفین عالم کی نجات ان سامراجی طاقتوں کے جہنمی تسلّط کی شکست میں ہے۔ امام خمینی ؒ اس کام کو اسلامی انقلاب کے تجربات کو دنیا میں برآمد کرنے کے ذریعے ممکن سمجھتے تھے اور معتقد تھے کہ یہ اقدام سامراجی تسلّط سے پاک عالمی نظام کا خاکہ پیش کرنے کیلئے سودمند ہے۔

  ''ہم دنیا کو اپنے تجربات سے روشناس کرائیں گے اور ظالموں کے ساتھ اپنے جہاد کے تجربات کو بغیر کسی توقع کے راہ حق کے مجاہدین کے سامنے رکھیں گے اور یقینا ان تجربات کو منتقل کرنے کا نتیجہ کامیابی وخودمختاری کی کلیاں پھوٹنے اور قوموں میں اسلامی احکام کے رواج کی صورت می ہوگا۔ تمام مسلمان روشن خیال افراد علم ومعرفت کے ذریعے کمیونزم اور سرمایہ دارانہ کو متزلزل کرنے کے کٹھن راستے کو ضرور طے کریں اور تمام حریت پسند اسلامی اور تیسری دنیا کے مظلوموں کی راہنمائی کرتے ہوئے سپر طاقتوں خصوصاً امریکہ کے منہ پر طمانچہ مارنے کا طریقہ سکھائیں''

(صحیفہ امام، ج ٢٠، ص ١١٨)

  اس طریقے کے قابل عمل ہونے کا یقین امام خمینی ؒ کے انقلابی نظرئیے کی خصوصیات میں سے ہے۔ آپ دنیا کی انقلابی طاقتوں کیلئے اس قدر اہمیت کے قائل تھے کہ آپ ان کو بڑی طاقتوں کو شکست دینے کیلئے کافی سمجھتے تھے اور ان طاقتوں کی مدد سے سامراجی تسلّط سے پاک عالمی نظام کے قیام پر یقین رکھتے تھے۔

  ''ہم مشرکین سے بے زاری کا اعلان کر کے دنیائے اسلام کی بکھری ہوئی توانائی یکجا کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور رکھتے ہیں اور اس کام کو خداوند عالم کی نصرت وفرزندان قرآن کے ہاتھوں انجام دے کر رہیں گے''

(صحیفہ امام، ج ٢٠، ص ٢٣١)

  ''میں یقین سے کہتا ہوں کہ اسلام ایک دن سپر طاقتوں کو ذلیل کر کے رہے گا۔ اسلام اپنی اندرونی اور اپنی حدود سے باہر کی تمام رکاٹوں کو یکے بعد دیگرے ختم کر کے دنیا کے اہم وکلیدی مورچوں کو فتح کر کے رہے گا''

(صحیفہ امام، ج ٢٠، ص ١١٨)

  یہ وہی وعدہ الٰہی ہے جس کی قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ بشارت دی ہے اور فرمایا ہے: (ہُوَ الَّذِي أرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدیٰ وَدِینِ الحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَو کَرِہَ الْمُشْرِکُون)

    

ای میل کریں