نگراں کونسل کی طرف سے ولی فقیہ کے دائرہ اختیارات پر بحث اور امام خمینی(ره) پر کئے جانے والے اعتراضات اور تنقیدیں ، پھر ان کی طرف سے ان کا جواب اور جب (عراق کے ساتھ) جنگ ہورہی تھی اس موقع پر نماز جمعہ میں ولایت فقیہ کے مسئلے پر بحث اور امام خمینی(ره) کا مدلل جواب ایسی باتیں تھیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام (ره) چاہتے تھے کہ ان موضوعات پر بحث و تمحیص ہو۔
جب امام خمینی(ره) کے دفتر کے ایک رکن نے معاشرے میں ابھرنے والے دو قسم کے فکری سیاسی گروہ کے نظریات کے بارے میں امام خمینی(ره) سے سوال کیا تو انہوں نے دونوں گروہ کی سرگرمیوں کو نہ صرف درست اور غیر نقصان دہ قرار دیا بلکہ علمائے سلف کی سیرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’اسلام کے عظیم فقہا کی کتابیں مختلف، عسکری، ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور عبادی وغیرہ موضوعات پر اختلاف و آراء اور روش اور مفاہیم میں اختلاف سے پر ہیں ۔ اسلامی حکومت میں ہمیشہ اجتہاد کا دروازہ کھلا رہنا چاہئے اور حکومت اور انقلاب کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ مختلف شعبوں میں فقہی اجتہادی آراء چاہے ایک دوسرے کے مخالف کیوں نہ ہوں آزادانہ طور پر پیش کی جائیں اور کسی کو اس سلسلے کو روکنے کا حق نہیں پہنچتا ہے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۲۱، ص۴۶ و ۴۷)
آگے چل کر امام خمینی(ره) نے لکھا ہے:
’’جب تک اختلافی مواقف کا اظہار مذکورہ مسائل کی حد تک ہو انقلاب کے لئے کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اگر اختلاف گہرا اور بنیادی اصولوں پر ہو تو نظام کی کمزوری کا باعث ہوتا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ اگر انقلاب سے وابستہ افراد اور گروہوں کے درمیان کوئی اختلاف ہو تو صرف سیاسی نوعیت کا ہے چاہے اسے نظریاتی شکل کیو ں نہ دیا جائے، اس لئے کہ سب مشترکہ اصول پر متفق ہیں ، اسی لئے میں ان کی تائید کرتا ہوں یہ لوگ اسلام اور قرآن کے بارے میں وفادار ہیں اور ان کے دلوں میں ملک اور قوم کے لئے تڑپ موجود ہے۔ ان میں سے ہر ایک اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی خدمت کے لئے پروگرام اور نظریہ رکھتا ہے جو اپنے جگہ فلاح و بہبود کا ضامن ہے۔ دونوں گروہوں کی غالب اکثریت چاہتی ہے کہ ان کا ملک خود مختار رہے اور دونوں گروہ عوام کو ان لوگوں کے چنگل سے رہائی دلانا چاہتے ہیں جو سرکاری اداروں اور کوچہ و بازار میں گھس کر ان کا خون چوس رہے ہیں ‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۲۱، ص ۴۷)
اس پیغام میں پسندیدہ اور غیر شائستہ اختلافات کی حد بندی واضح طور پر نظر آتی ہے اس میں ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ امام خمینی(ره) کی نظر میں اختلاف کی نوعیت یا نظریاتی ہے یا سیاسی؛ البتہ نظریاتی اختلافات سے مقصد ان کا دین کے بنیادی اصول ، مثلاً توحید، نبوت، قیامت اور امامت وغیرہ کے بارے میں اختلاف ہے، لہذا امام خمینی(ره) کی رائے میں فقہا کا اختلاف کسی صورت میں نظریاتی اختلاف نہیں ہے۔ تاہم اصولی نظریات میں اسلامی تحریک پر یقین، دین کو عام انسانی ہدایت کا راہنما سمجھنا، عالم کفر، سرمایہ دارانہ اور سامراجی دنیا اور امریکہ کے بارے میں مناسب نظریہ رکھنا بھی شامل ہیں اور امام خمینی(ره) کی رائے میں دونوں گروہ ان مشترکہ اصولوں کو مانتے ہیں ۔ جہاں تک پسندیدہ اختلافات کا تعلق ہے وہ مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے اپنائے جانے والے طریقہ کار یا بعض ذیلی اہداف و مقاصد میں اختلاف رائے ہے۔
امام خمینی(ره) خود اس پیغام میں آگے لکھتے ہیں : ’’پھر اختلاف کس بات پر ہے؟ اختلاف اس بات پر ہے کہ کونسا راستہ ان تمام (مقاصد) تک پہنچنے کا راستہ ہے؟ ‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۲۱، ص ۴۸)
مختصراً کہہ سکتے ہیں کہ امام خمینی(ره) کی نظر میں پسندیدہ وحدت ، مکمل عملی اتحاد اور تمام سرکاری اداروں اور عہدیداروں کے فعل و عمل میں ہم آہنگی اور اسلام و انقلاب کے بنیادی اصولوں میں فکری یکسوئی ہے لیکن بنیادی اصولوں کے اجرا کے طریقہ ہائے کار اور دوسرے فروعی مسائل پسندیدہ وحدت و یک جہتی کی راہ میں خلل نہیں ڈال سکتے ہیں ۔ حضرت امام خمینی(ره) نے حکومتی عہدیداروں کو اس وحدت کے قیام کی دعوت دیتے اور آرام و سکون اتحاد و یک جہتی اور بحث و گفتگو کی تلقین کرتے تھے۔