امام خمینی(رح): اس قوم کےلئے بہشتی خود ایک ملت کی حیثیت رکہتے تھے۔
صحیفہ امام، ج۱۵، ص۱۸
اسلام و قرآن کا پرچم دار " معمار انقلاب " شہید مظلوم حضرت آیت اللہ بہشتی اور انکے ۷۲ رفقاء کی شہادت ۲۸ جون کے دن واقع ہوئی ہے، جنہوں نے سید الشہداء امام حسین(ع) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ خون کا نذرانہ پیش کرکے سرزمین ایران پر اسلام وانقلاب کی جڑیں ہمیشہ کےلئے محکم و استوار کردی ہیں۔
شہید آیت اللہ محمد حسین بہشتی بیک وقت مجتہد، فقیہ، فلسفی، مکتب شناس، سیاستدان اور منتظم و مدبر، دنیا کی کئی زندہ زبانوں پر [عربی، فارسی، انگریزی اور جرمنی] مسلط اور جامع و کامل شخصیت کے حامل مومن و مخلص انسان تھےکہ جن پر تاریخ اسلام و انقلاب جتنا بھی افتخار کرے، کم ہے۔
ایک ایسی احسن و اکمل ذات کہ جس کےلئے رہبر کبیر، بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی(رح) نے بجا طور پر فرمایا " شہید بہشتی اپنی جگہ، خود تنہا ایک امت تھے"۔
شہید بہشتی، سن ۱۹۲۸ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اصفہان میں حاصل کی اور اسلامی علوم میں اپنی بے پناہ دلچسپی کے سبب ہائر سکنڈری کے بعد حوزۂ علمیہ اصفہان میں داخلہ لے لیا؛ پھر اپنے چند دوستوں کے ساتھ حوزۂ علمیہ قم تشریف لائے اور جیسا کہ خود کہتے ہیں: میں نے قم آکر مدرسۂ حجتیہ میں قیام کیا، مکاسب اور کفایہ کی تکمیل کے بعد، آیت اللہ داماد اور آیت اللہ العظمی بروجردی اور امام خمینی(رح) کے درس خارج میں بھی شریک ہوا۔ البتہ اسی کے ساتھ ہی دل میں خیال آیا کہ یونیورسٹی کی تعلیم بھی حاصل کروں۔ چنانچہ اسلامی معارف میں الہیات یونیورسٹی سے بی اے؛ ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔
آپ نے "دبیرستان دین و دانش" کے نام سے قم میں ایک ہائر سکنڈری اسکول کی بنیاد رکھی اور حوزۂ علمیۂ قم کے طلبہ کے درمیان مروجہ علوم و زبان سیکھنے کا شوق پیدا کیا اور گرانقدر ثقافتی خدمات انجام دیں۔
اس کے بعد آپ نے قم میں ہی چند احباب کے ساتھ مل کر ایک بڑے اور وسیع مدرسۂ حقانی کی بنیاد رکھی اور حوزۂ علمیہ کے فاضل طلبا کا ایک گروہ جمع کرکے اسلامی حکومت کے موضوع پر تعلیم و تحقیقات کےلئے تشکیل دیا۔
یہی وہ زمانہ ہے جب شاہی حکومت کی خفیہ مشنری " ساواک " نے آپ کو قم چھوڑ دینے پر مجبور کیا اور آپ کو تہران منتقل ہونا پڑا لیکن آپ نے اپنا رابطہ حوزۂ علمیہ سے منقطع نہیں کیا۔
انیس سو چونسٹھ میں مدارس میں دینی تعلیمات کےلئے ایک مکمل نصاب تعلیم مرتب کیا جس کے مطابق، ایک طالب علم پندرہ سال میں اجتہاد کی منزلیں طے کرسکتا تھا اور اجتہاد کے مراحل میں ایک امتحان کے علاوہ ایک تحقیقی مقالہ بھی لکھنا پڑتا۔ یہ نصاب پہلی مرتبہ مدرسۂ حقانی میں جاری کیا گیا اور شہید بہشتی کے مرتب کردہ اصولوں کی بنیاد پر طلبہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا گیا۔
سن ۱۹۶۵ میں آیت اللہ العظمی بروجردی علیہ الرحمہ کی فرمائش پر پانچ برسوں کےلئے شہید بہشتی کو اسلامی تبلیغی مہم کےلئے جرمنی کے شہر ہمبرگ کا سفر کرنا پڑا۔ آپ نے وہاں یونیورسٹیوں کے طلبہ کے درمیان اسلامی انجمنیں قائم کرکے فارسی زبان کی ترویج کے ضمن میں ہی صحیح اسلامی افکار و نظریات سے مغربی دنیا کو آشنا بنانے کےلئے یونیورسٹیوں اور کلیساؤں میں جاکر خود ان کی جرمن زبان میں تقریریں کیں جو بےحد موثر ثابت ہوئیں۔
اس طرح اپنی مسلسل فکری اور ثقافتی انقلابی جد و جہد کے بعد انیس سو اٹھہتر میں علی الاعلان سیاسی میدان میں اتر پڑے اور شہید مطہری، آیت اللہ خامنہ ای، آیت اللہ مشکینی اور دوسری اہم انقلابی شخصیتوں کے ساتھ، امام خمینی کی اسلامی تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور پھر امام خمینی(رح) کے حکم سے باقاعدہ طور پر ایک انقلابی کونسل تشکیل پائی جس میں آیت اللہ بہشتی سرفہرست تھے۔
چنانچہ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور بقا و استحکام میں شہید بہشتی کے کارنامہ کو اگر ایک جملے میں بیان کرنا چاہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں :
حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے رفقائے کار کے درمیان شہید بہشتی نے اسلامی انقلاب کی بنیادی ترین خدمات انجام دی ہیں۔
شہید بہشتی کی شخصیت کی جامعیت اور اسلامی علوم و فنون پر کامل تسلط کے ساتھ ہی عصر حاضر کے تمام سیاسی و نظریاتی مکاتب سے گہری واقفیت نیز مختلف اسلامی اور یورپی زبانوں میں تقریر و تحریر کی صلاحیت نے آپ کو دوستوں حتی بزرگوں کے درمیان بھی ممتاز کردیا تھا۔
جس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی تشکیل کےلئے " مجلس خبرگان " کے جلسوں میں شہید بہشتی اپنی زبان کھولتے تھے تو اسلام و قرآن کے تمام مخالفین و معاندین کی زبانیں گنگ رہ جاتی تھیں اور ان کو اپنی کمیوں کے سبب سبکی کا احساس ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہےکہ دو طرح کے لوگ آپ کے وجود سے گبھراتے اور مخالفت و کینہ توزی سے لبریز تھے، ایک تو منافقین اور مشرق و مغرب سے وابستہ عناصر کا وہ گروہ تھا جو اسلامی انقلاب کی بنیادوں کا ہی مخالف تھا۔ اور دوسرا حکومت و اقتدار کا بھوکا تنگ نظر علماء اور مفاد پرست دانشوروں کا وہ طبقہ تھا جو اپنے سیاسی مقاصد کی راب میں شہید بہشتی کو روڑا سمجھتا تھا اور سختی سے احساس کمتری کا شکار تھا۔
مخالفین کو معلوم تھا بہشتی تن تنہا ایک "معاشرہ " ایک ملت اور ایک امت ہیں، لہذا پہلے انہوں نے ان کی شخصیت کو قتل اور بدنام کرنے کی کوشش کی لیکن آیت اللہ بہشتی کو ان کی درایت، محکم گفتگو، خلوص، خدا پر توکل اور نفس پر اعتماد نے دشمنوں کے مقابل پر میدان میں کامیابی عطا کی اور دشمنوں کے سامنے آپ کو قتل کردینے کے سوا اور کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا۔
انقلاب کے بعد ابتدائی تین برسوں میں شہید بہشتی کو جن حالات سے مقابلہ کرنا پڑا ہے، اس کی ترجمانی، امام خمینی کی طرف سے دیا گیا " مظلوم " کہہ کر خطاب فرمایا۔
بہرحال، شہید بہشتی نے تمام مخالفتوں کے باوجود اسلامی انقلاب کی وہ قیمتی خدمات انجام دی ہیں کہ جنہیں اسلامی انقلاب کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ حقیقت یہ ہےکہ اگر اوائل انقلاب ہی میں شہید بہشتی نے " آئین " کی تشکیل کا اہتمام نہ کیا ہوتا تو خدا ہی بہتر جانتا ہےکہ آج اسلامی جمہوریہ ایران کا " آئین " کیا اور کیسا ہوتا۔
اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران کا آئین راہ اسلام و قران میں شہید ہونے والے دسیوں ہزار افراد کے خون کا عطیہ ہے لیکن مجلس خبرگان کی کوششوں نیز اس کے ناظم کی حیثیت سے شہید مظلوم آیت اللہ بہشتی کے تدبر اور دور اندیشیوں کا ہی نتیجہ ہے۔ آئین کی منظوری میں آیت اللہ بہشتی کا فیصلہ کن کردار، دشمنوں کی مخالفت بڑھ جانے کا سبب بنا۔
انقلاب کے بعد، امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے ایک اور اہم ذمہ داری شہید بہشتی کو سپرد کی کہ انہیں " عدلیہ" کا سربراہ " دیوان عالی " قرار دے دیا اور شہید نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے عدلیہ کو عزت و وقار عطا کردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا:
سانحہ ہفتم تیر ( اٹھائيس جون 1981) ایک لحاظ سے ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مظلومیت کا ثبوت تھا اور دوسرے لحاظ سے نظام کی طاقت اور استحکام کی سند۔
بہرحال ان کو اپنا انعام ملا.یقینا مرحوم شہید بہشتی جیسی بڑی شخصیت کو جو اتنی بلند ہمت، غیور اور جفا کش تھی بستر کی موت زیب نہیں دیتی۔ بہشتی کو شہید ہونا ہی تھا۔ شہادت ایک بڑی جزا ہے جو ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ملی۔