امام خمینی (رح): رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ جب تک پچیس مرتبہ استغفار نہیں کرلیتے، کسی بھی نشست سے باہر تشریف نہیں لے جاتے تھے۔
حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد نے شہر دماوند کے احمد آباد محلہ کے لوگوں کے ساتھ اپنے ہفتگی درس اخلاق میں زیارت جامعہ کی شرح کرتے ہوئے بیان کیا : وجود مبارک امام دهم امام علی نقی الهادی (سلام الله علیہ) کی اسلامی معارف و علوم الہی کی اشاعت و تفسیر قرآن کریم و پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت بیان کرنے میں بے شمار برکات کے حامل ہیں ۔
انہوں نے وضاحت کی : زیارت نورانی جامعه كبیرہ حقیقت میں امامت و ولایت و عترت کی حقیقت کی تفسیر ہے ؛ عترت طاہرین ، عِدل قرآن كریم ہیں جس طرح جیسے قرآن کریم کو تفسیر کی ضرورت ہے ، اسی طرح عترت کی حقیقت ، امامت کی حقیقت ، ولایت کی حقیقت تفسیر کا محتاج ہے ، دعائیں و مناجاتیں اور زیارتیں جو ان الہی خاندان اور ذوات مقدسہ سے شایع ہوئی ہیں یہ سب ان کی سیرت و سنت کی تفسیر ہو سکتی ہیں لیکن زیارت نورانی جامعہ کبیرہ جو کہ امام علی نقی الهادی (ع) سے ہم تک پہوچی ہے اس کی مشارکت اس میدان میں کافی زیادہ ہے ۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : امام علی نقی الهادی(ع) نے مشخص کیا ہے کہ دنیا کیا ہے اور اس دنیا میں ہم لوگوں کا کیا مقام ہے ۔ حضرت نے فرمایا دنیا ایک بازار کی طرح ہے کہ اس منڈی سے کچھ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور کچھ لوگوں کو نقصان ہوتا ہے ، امام علیہ السلام کے نورانی بیان کے مطابق کہ یہ دنیا ایک بازار ہے تو ہم لوگوں کو توجہ کرنی چاہیئے کہ کس چیز کا سودا کریں اور کس چیز کی خریداری نہ کریں ، اور کس شخص سے سامان خریدیں اور کس چیز کو بیچیں ۔ ان میں سے کچھ چیزوں کو قرآن کریم نے اچھی طرح بیان کیا ہے اور فرمایا جب چاہتے ہو نیک کام انجام دو تو خدا کے ساتھ سودا کرو ؛ قرآن کریم کی تعبیر میں یہ ہے کہ خداوند عالم ہمارے نیک اعمال کو خریدتا ہے اور اس کے عوض میں بہشت ، عزت اور دنیا و آخرت کی نیکی ہم لوگوں کو عطا کرتا ہے ۔
قرآن کریم کے مشہور و معروف مفسر نے اپنی گفت و گو کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : خداوند عالم سورہ مبارکہ صف میں فرمایا ہے کہ دنیا تجارت خانہ ہے لیکن کیا تم چاہتے ہو کہ میں تم کو بتاوں کہ کون سی تجارت تمہارے فائدہ میں ہے جس سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکو ؟ فرمایا بہترین تجارت یہ ہے کہ اپنے کاموں کو خداوند عالم کی رضایت کے لئے انجام دو اور اس کے ساتھ سودا کرو ۔ انسان جب خداوند عالم سے بیعت کرتا ہے ، پیغمبر اکرم (ص) سے بیعت کرتا ہے یعنی اپنے جان و مال کو اس سے بیچ دیتا ہے اور خداوند عالم اس کے مقابلہ میں جو ثمن ان کو عطا کرتا ہے وہ دنیا میں کامیابی و کامرانی ہے اور آخرت میں بھی ۔ لیکن وہ چیز جو امام علی نقی علیہ السلام کے نورانی بیان سے سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان ایک وقت کسی سے معاملہ کرتا ہے کہ وہ کریم ہے ، بزرگ ہے ، بخشنے والا ہے ، عوض و معوّض ہر دو ہم کو واپس کرنے والا ہے ! یعنی مثال کے طور پر اگر محترم خریدار ہمارے فرش کو کہ جس کی قیمت سو درہم ہو اس کو دو سو درہم میں خریدتا ہے اور اس کے بعد دو سو درہم کے ساتھ فرش بھی ہم کو واپس کر دیتا ہے یہ یعنی کیا ؟ یہ ایسی تجارت ہے کہ جس کی مثال نہیں ہے ۔
انہوں نے رسول اکرم (ص) کی نورانی بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے استغفار کو شیطان سے مقابلے کا بہترین راستہ جانا ہے اور بیان کیا : خیال کرنا ، احتیاط کرنا ، استغفار کرنا اور توبہ کرنا یہ سب اسی لئے ہے کہ انسان مسلسل خداوند عالم سے سودا کرنے کے راہ میں رہے اور شیطان سے سودا کرنے سے دوری اختیار کرے ۔ رسول اکرم (ص) کے ایک نورانی بیان میں نقل ہوا ہے کہ فرمایا : «تعطروا بالاستغفار» انسان کے لئے مستحب ہے کہ جب نماز پڑھے یا مسجد میں جائے معظر ہو لیکن اس کے مقابلہ میں فرمایا ہے ایک دوسرا عطر بھی ہے کہ وہ عطر رسوائی کو دور کرتی ہے ! استغفار سے خود کو معظر کرو ورنہ تمہارے گناہ کی بدبو تم کو رسوا کر دے گی ! فرمایا استغفار ، توبہ کرنا ، خداوند عالم سے راز و نیاز کرنا ، نالہ کرتا ، آنسو بہانا یہ سب عطر ہے جو آبروریزی کی حفاظت کرتا ہے۔