قرآن مجید

قرآن مجید کے نزول کے بارے میں امام خمینی (رح) کا کیا نظریہ ہے؟

یہ نزول کا ساتواں مرتبہ ہے

قرآن مجید کی حقیقت جیسا کہ قرآن کے چوتھے سورہ، سورہ زخرف میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے (و انه فی امّ الکتاب لدینا لعلیّ حکیم) بے شک  ام الکتاب میں ہے جو ہمارے نزدیک بلند اور حکیم تھا اس کے پاس ایسا مقام ہے جو اس سے نچلی دنیا کی خسوصیات سے دور ہے ۔

لھذا اس بناپر تانکہ لوگ اس حقیقت سے استفادہ کر سکیں تو اسے اپنے مقام سے نیچے آنا پڑھے گا یعنی اپنے مقام سے نزول کرے اور نزول کا معنی اپنے مقام سے  کم تر مقام  پر ظاہر ہونا اور  قرآن ان مراتب اور مقامات کو طے کرے الفاظ کی صورت میں پیغمبر اکرمﷺ کی زبان مبارک سے جاری ہوا۔

یہ نزول کا ساتواں  مرتبہ ہے جو شاید نزول کے مراتب  انسانی وجود کے ہفتگانہ (مکنل انسان)مراتب کی طرح ہیں امام(رح) نے فرمایا قرآن کریم کے کچھ پہلوں ہیں کہ جب تک رسول اکرم ﷺ مبعوث نہیں ہوے تھے اور قرآن مقام غیب سے  نازل نہیں ہوا تھا اور اپنے نزولی جلوہ کے ساتھ قلب پیغمبر اکرمﷺ میں جلوہ نما نہیں ہوے تھے کسی بھی موجود حتی فرشتوں کے لئے بھی ظاہر نہیں تھے

لیکن جب نبی مقدس نے فیض الہی سے رابطہ کیا انھوں نے قرآن کو آہستہ آہستہ کسب کیا اور ان کے قلب مبارک میں جلوہ گر ہوا اور نزول کے ہفتگانہ مراتب  کے ساتھ پیغمبر اکرمﷺ کی زبان سے جاری ہوا جو قرآن ابھی ہمارے پاس ہے وہ نزول کے ہفتگانہ مراتب میں سے ساتویں مرتبہ کا قرآن ہے۔

ای میل کریں