حضرت فاطمہ زہرا ایک نمونہ اور آئیڈیئل خاتون ہیں جن کی آدم سے لیکر آج تک کوئی مثال نہیں ہے۔ آپ کا نام نامی فاطمہ اور مشہور القاب زہرا،سیدہ نساءالعالمین،راضیہ،مرضیہ،شافعہ،صدیقہ،طاہرہ،زکیہ،خیر النساء،محدثہ بتول وعذراء ہے۔ آپ کی کنیت ام الائمہ،ام الحسنین،ام السبطین اور ام ابیہا ہے۔
والدین:آپ کے والد گرامی خاتم الانبیاء و المرسلین حضرت محمد المصطفی ہیں اور مادر گرامی حضرت خدیجہ بنت خویلد ہیں۔حضرت فاطمہ زہرا(س)ایسے ہی نجیب اورشریف والدین اور عالم انسانیت کے محسن اور ہمدرداور ایسی عظیم ہستیوں کی آغوش تربیت کی پروردہ ہیں جن کی کائنات میں کوئی مثال نہیں ہے -آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے لیکن اہلبیت عصمت وطہارت کی روایات کی روشنی میں آپ کی ولادت باسعادت بعثت کے پانچویں سال 20/جمادی الثانیہ بروز جمعہ مکہ مکرمہ میں ہوئی ہے-آپ کے بارے میں قرآن کریم نے کوثر سے تعبیر کیاہے اس سے برتر کوئی کلمہ نہیں ہے وہ بھی اس دور میں جب عورت کو شر مطلق اورگناہ وفریب کا عنصر جانا جاتا تھا، لڑکیوں کو زندہ در گور کرنےپر فخر کیا کرتے تھےاور عورتوں پر ظلم کرنے اور انھیں ستانے کو اپنی برتری سمجھتے تھے ایسے ناگفتہ بہ حالات میں قرآن کریم "خیر"نہیں کہتا بلکہ"کوثر"یعنی خیر کثیر کہہ رہا ہے (آیت اللہ مطہری) رہبر مسلمین جہان تشیع آیت اللہ خامنہ ای کہتے ہیں :حضرت زہرا انسانیت اور آدمیت کی معراج ہیں۔ آپ آسمان انسانیت کا وہ خورشید درخشاں ہیں جس کی نور افشانی سے عالم کون ومکاں روشن ومنور ہے اور اس کی تابانی سے کائنات کاذرہ ذرہ فیضیاب ہو رہا ہے اور اس ضوفشانی کا رہتی دنیا تک کوئی جواب نہیں ہے۔
عیسائی دانشور سلیمان کتانی اپنی کتاب کی ابتداء میں لکھتے ہیں:حضرت فاطمہ کا مقام و مرتبہ اس سے کہیں زیادہ بلند وبالا ہےجس کی طرف تاریخ اور روایات اشارہ کرتی ہیں اور آپ کی عظمت و شان،عزت و وقار اور قدر و منزلت اس سے کہیں زیادہ بلند و اعلی ہے جس کی طرف سوانح حیات لکھنے والے قلم فرسائی کرتے ہیں؛ آپ کی قدر و منزلت اور عظمت وشوکت اور مرکزیت کے لئےیہی کافی ہے کہ آل ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی (ص) کی لخت جگر، پارہ تن اور نور نظر ہیں اور امام الانس و الجان امیر مومنان حضرت علی(ع) کی زوجہ طاہرہ اور آپ کے بچے حسن و حسین (ع)کی مادر گرامی ہیں- آپ کے پردہ کا یہ عالم تھا کہ آپ کبھی بھی بغیر ضرورت کے گھر سے باہر نہیں نکلیں اور جب بھی نکلیں تو مکمل حجاب اور مثالی پردہ کے ساتھ نکلیں اور انصار کی عورتوں کے حلقہ میں نکلی ہیں یہاں تک کہ جب مسجد میں خطبہ دینے اپنا حق ثابت کرنے اور باطل کو بے نقاب کرنے اور اسے رہتی تاریخ تک ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رسوا کرنے نکلیں تو مکمل پردہ کے ساتھ آپ کے پردہ کا یہ عالم تھا کہ نابینا سے بھی پردہ کرتی تھیں اور اپنے والد کے سوال کا اس طرح جواب دیتی تھیں کہ والد گرامی اگر چہ وہ مجھے نہیں دیکھ رہا ہے لیکن میں تو اسے دیکھ رہی ہوں اور وہ میری خوشبو محسوس کر رہا ہے –
دوسرے مقام پر فرماتی ہیں:بہترین عورت وہ ہے جو نہ کسی مرد کو دیکھے اور نہ کوئی مرد اسے دیکھے -(مطلب یہ ہے کہ جب تک مردوں کے مجمع میں جانے کی ضرورت نہ ہو نہ جائے) ایک دوسرے مقام پر فرماتی ہیں :عورت کے خداسے سب سے زیادہ تقرب کا وہ موقع ہوتا ہے جب وہ گھرکے اندر موجود ہو-خلاصہ آپ نے پردہ کی مرتے دم تک پاسداری کی اور اس کی عظمت کو دوبالا کیا ہے ۔
اسلام سے پہلے پردہ کا رواج
قدر مسلم یہ ہے کہ اسلام سے پہلے بھی بعض اقوام وملل کے درمیان پردہ کا رواج تھا یہاں تک کہ تاریخی کتابوں میں موجود ہے کہ قدیمی ایران ،قوم یہود اور ہندوستان میں پردہ تھااور اسلامی قانون سے زیادہ سخت اور مشکل تھا لیکن دور جاہلیت اورعرب میں حجاب اور پردہ کا کوئی وجود نہ تھا اور اسلام آنے کے بعد عرب میں پردہ کا رواج ہوا ہے۔ ایران کے ساسانی دور میں عورتوں کو صرف ڈھانپنے ہی کا رواج نہیں تھا بلکہ اس کے وجود کو پوشیدہ رکھا جاتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ ارباب دولت و ثروت نیز طاقتور اور سلاطین اور ان کے شاہزادوں کے تجاوز اور خودسری سے محفوظ رکھنے کے لئے اس کی خبر تک پوشیدہ رکھی جاتی تھی اور حسین وجمیل عورتوں کی بڑی حفاظت کی جاتی تھی کیونکہ ہوس پرست اور حیوان صفت لوگ اپنی ہوسرانی اور خواہشات کا نشانہ بنالیتے تھے۔
ایران کا انقلاب اور خواتین
رہبر کبیر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی روح اللہ الموسوی خمینی فرماتے ہیں:عورتیں دو مرحلوں میں مظلوم رہی ہیں اور مردوں کے ستم کا نشانہ بنتی رہی ہیں: ایک دور جاہلیت میں کہ اسلام نے انسان پر احسان کیا اور جہالت میں ڈوبے معاشرہ کو علم نور کی جانب لاکر انسانیت کو پھر سے زندہ کیا اور عورتوں کو اس مظلومیت اور بے بسی سے نجات دلائی-دوسرا مرحلہ ہمارے ایران میں ہے جہاں عورت مظلوم ہوئی ہے اور وہ دور سابق ولاحق شاہ کا منحوس دور ہے کیونکہ ان لوگوں نے آزادی کے نام پران کے ساتھ ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور انسانیت کے ساتھ ناروا سلوک کئے ہیں،عورت کو اس کے مقام عزت و شرافت سے نیچے گرایا، اس کی ہتک حرمت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ادے اد کے روحانی اور معنوی مقام ومرتبہ سے گرا کر ایک چیز بنا ڈالا۔ آزاد عورتیں اور آزاد مردوں کے نام پر ان کی خدا داد اور فطری آزادی کو چھین لیا اور ہماری عورتوں اور ہمارے جوانوں کے اخلاق کو فاسد اور خراب کر دیا۔ امام خمینی کہتےہیں :عورت ایک انسان ہے ،ایک عظیم انسان ہے عورت معاشرہ کی تربیت کرتی ہے عطوفت کی آغوش میں انسان پروان چڑھتے ہیں ممالک کی خیر و صلاح ،بد بختی اور بے چارہ گی اسی کے دم قدم سے ہے ،عورت اپنی اچھی تربیت سے انسان بناتی اور خلیفہ الہی کی مرکزیت بھی اسی کو حاصل ہے،یہ اپنی صحیح اور اچھی تربیت سےملک کو آباد کرتی ہے نیز تمام سعادتوں اور خیر و برکت کا سر چشمہ بھی اسی کی ذات ہے اور ایک عورت کو ہر خیر اور خوبی کا مرکز اور سر چشمہ ہونا بھی چاہیئے۔ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ عالم انسانیت کے عظیم رہبر اور آدمیت کے پیشوا ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی (ص) اس پاک و پاکیزہ مولود وموجود کا حد درجہ احترام کیا کرتے تھے یعنی حضرت زہرا(ع)کی تعظیم میں کھڑے ہوجاتے اور اپنی مسند پر بٹھاتے تھے تاکہ زمانہ کو یہ درس دیں کہ عورت معاشرہ کا اہم اور عظیم حصہ ہے اس کے بغیر انسانیت ادھوری اور نا تمام ہے کہ اگر مرد سے بلند وبرتر نہیں تو اس سے کم بھی نہیں ہے؛ گھر کے لحاظ سے ماں کی آغوش سب بڑا مدرسہ ہے جہاں بچہ پروان چڑھتا اور تربیت پاتا ہے۔
ماں کے لحاظ سے اتنی بلند مرتبہ اور عظیم ہستی ہے کہ اس کی ایک رات کی زحمتوں کا حق ادا نہیں ہو سکتا ۔ حدیث میں جو یہ ہے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ایک حقیقت ہے۔ ایران میں انقلاب سے پہلے عورتوں کی بے حجابی اورعریانیت کا جشن منایا جاتا تھالیکن انقلاب آنے اور اسلامی نظام قائم ہونے کے بعدعورت کی عظمت وشان ،اس کی کرامت اور بزرگی اور عزت وآبرو کی کا ذکر ہوتا اور گھر اور معاشرہ کی ترقی میں اس کے اعلی کردار اور اد کی نور افشانی کا ذکر ہوتا اور جشن منایا جاتا ہے۔