کتنے غضب کی تھی یہ ہوا انقلاب کی / مہلت ہی نہ سنبھلنے کی اس نے کسی کو دی
شاہ کے لئے کہیں نہ رہی پھر پناہ گاه / جب تاج کو اڑا کے یہ سر سے گزر گئی
خمینی کی صدائے حق کو شاہوں کی یہ تدبیریں / یہ طاغوتی عزائم اور یہ باطل کی شمشیریں
بھلا کیسے دبا سکتی ہیں کہ اس کی ہتھیلی پر / کچھ ایسی ہیں لکیریں جو ہیں مظلوموں کی تقدیریں
آج ان ہاتھوں نے تھامی ہے زمامِ انقلاب / ہی جنہیں کامل یقین استحکامِ انقلاب
اس لئے کہ ان کے پرچم پر ہے جو اللہ کا نام / در حقیقت وہ ہے اک سندِ دوامِ انقلاب
وقت ہے کہ ایک ہوجاؤ بنامِ انقلاب / تیز ہو دنیا میں پھر عملِ قیامِ انقلاب
پرچم نصر من اللہ کو اٹھا کر ہاتھ میں / سارے مظلوموں کو پہنچا دو پیامِ انقلاب