تغافل کیش! تو حال دل تفتہ تو کیا جانے
خطا کاری ہماری تجھ سے بے پروا کو کیا جانے
یہاں سے مست عشق آگے گئے اور بے خبر ہے تو
''رحیل راہی لا جانب الا'' کو کیا جانے
تو کیا سمجھے تہی داماں بھی ہیں ہم جور پیشہ بھی
سبکباری فرض عاشق والا کو کیا جانے
نکل آئے خودی سے سب تلاش یار دلبر میں
تو پابند قفس منزل گہ عنقا کو کیا جانے
قفس کو توڑ دے اٹھ کر، شکستہ کر دے زنجیریں
اسیر لا بشر کی منزل اعلیٰ کو کیا جانے
بس اک دعوای لا حاصل ہے تجھ کو آدمیّت کا
اسیر لفظ! تو الفاظ کے معنیٰ کو کیا جانے