عجم کے بوڑھے افق پہ تازہ کرن ہے زندہ تمازتیں ہیں / دیارِ جبروت فروزاں چراغِ نو کی کرامتیں ہیں
بلا ل و بوذر کا عزم لے کر سلامتی کا امام آیا / گراکے قصر و حصارِ ظلمت وہ صبحِ نو پیام آیا
کلاہ تاج سکندری و نفیر و کوس و فرس اڑے ہیں / امام کی ٹھوکروں میں شہی کے صوت و جرس اڑے ہیں
بلندیوں پر امام چمکا شہی کا ڈوبا مہ و ستارا / عجم کے جمہور کو ملا ہے حرم کے قرآن کا اشارہ
بہشتِ سعدی، بہار حافظ پہ تخت خسرو بچھا ہوا تھا / چراغ خیام و شمس و جامی شبِ ازل سے بجھا ہوا تھا
بشر کے روح اور جسم دونوں در ستم پر جھکے ہوئے تھے / غلام! بے دام تھے جو کسری کے نقشِ پا پر رکے ہوئے تھے
یہ عرش و کرسی یہ تاج و پرچم بشر کے ذہنوں سے ماورا تھے / تمام نسلوں پہ وحشتوں کے کئی جم و کے کئی خدا تھے
امام آیا تو پھر عجم میں ضمیر کن کی صدائیں جاگیں / ازل کی تازہ مٹھاس ابھری ابد کی رکنگیں نوائیں جاگیں
مدام ہجرت کے شب کدے میں صدی کے اسرار جاگتے تھے / گلاب ھنکھوں میں مہر و مہ کے ہزار آثار جاگتے تھے
بجھے بسیروں میں لوگ اپنی شناختوں کو ترس رہے تھے / جو سمت مغرب سے ابر اٹھے وہ قصرِ شہ پر برس رہے تھے
لہو سویرا تھی شام اندھی غبار آلود زلفِ شب تھی / بشر کے دل میں جو آرزو تھی وہ ایک آواز زیرِ لب تھی
امام تنہا شہنشی کے جلو میں سیلاب صف بہ صف تھے / امام معصوم حق شناسا نئے یزیدوں میں سربکف تھے
مشیت ایزدی کے رتھ پر امامِ عالی مقام آیا / تمیز شاہ و گدا مٹا کر عظیم رب کا پیام لایا
کہ اب عجم کی گلی گلی میں حسین و حیدر کا دین ہوگا / شعور پر اعتماد ہوگا، دل و نظر پر یقین ہوگا
ترے نگیں تھا دیارِ ایراں اب ایشیا کا امام تو ہے / وجود ترا ہے قوم تیری نسب ترا ننگ و نام تو سے