تمہیں شاید خبر ہو!
کہ ہماری آنکھ ہر منظر کے پس منظر سے واقف ہے
تمہیں شاید خبر ہو!
کہ ہمارا سر
ہر اک شہر شبِ کربل کے نیز پر سرفرازی کا قائل ہے
ہمارے دل پہ
ہر موسم ہر اک رُت کی اذیت آئیتوں کی شکل میں اتری
ہماری سانس
شہرِ حبس کی سب قتل گاہوں میں
ہمیشہ سُرخرو ٹھہری
ہماری ہر تمنا بے بسی کازہر پی کر
زندگی کے لمس کو محسوس کرتی ہے
تمہیں شاید خبر ہو!
ہم نے سچائی کے پرچم کو سر صحرائے استبداد
سرافراز رکھا ہے
تمہیں شاید خبر ہو!
ہم نے ہر منصور ہر سقراط کا نقشِ کفِ پا
منزلوں کا نور سمجھا ہے
تمہیں شاید خبر ہو!
ہم کو دستِ شب پہ شمع کی طرح جلنا تو آتا هے
بجا جینا نہیں آتا!
مگر مرنا تو آتا ہے