گزشتہ صدی کے آئینہ میں براعظم ایشیا کی تاریخ پر نظرڈالی جائے تو یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ اس تمام عرصہ میں انقلابی فکر اور قیادت نے خصوصاً مسلمانوں کو ایک نئی کیفیت سے آگاہ کیا۔ برصغیر نےگزشتہ صدی کے اوائل سے ہی دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم اسلامی ملک کی حکومت ایک عظیم انقلاب برپا کرنے والوں کے لیے راہ ہموار کر رہی تھی کسے خبر تھی کہ بیسویں صدی میں ایک ایسا شخص پیدا ہوگا جو عوام کی فکر میں ایک نئی روح پھونکے گا اور مرد انقلاب کہلائے گا۔ رہبرکبیر سید روح اللہ خمینی وہ تاریخ ساز نام ہے جس نے انقلاب کی جنگ استقامت کے ساتھ لڑی۔ یہ حقیقت ہے کہ جب فریقین میں فکر کا تضاد ہوتو کر بلا جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں کوئی یزید بن جاتا ہے تو کوئی حسین علیہ السلام !! ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ صدی کے دوران ایران میں رونما ہوا جس نے انقلاب اسلامی کی راہ ہموار کی۔
ٓٓا مام خمینی کی تاریخ پیدائش 20جمادی الثانی 1320 بمطابق23ستمبر 1903اور جائے ولادت ضلع خمین (ایران ) ہے ۔ آپ کے والد گرامی مرحوم آیت اللہ سید مصطفی موسوی ، آٰیت اللہ العظمیٰ میر زائے شیر ازی کے ہم عصر تھے اور نجف اشرف میں کئی سال اسلامی علوم حاصل کر کے درجۂ اجتہاد پر فائز ہوئے حکومت وقت کے خلاف حق پرستی کی حمایت کا صلہ شہادت کی صورت میں آپ کو دیا گیا ۔امام خمینی کے لیے یہ تمام صورتحال اجنبی تھی کیونکہ اُس وقت آپ کی عمر محض پانچ ماہ تھی۔ آپ کی والدہ جرأت اور علم و تقویٰ کا پیکر تھیں لہٰذا آپ کی تربیت پر خاص تو جہ دی
لڑکپن سے لے کر بلو غت تک آپ نے اُس زمانے کی مرو جہ تعلیمات اور دینی مدارس کا نصاب مختلف علمائے کرام سے پڑھا۔ حصول علم کی خاطر آپ نے سفر بھی اختیار کیا اور اراک سے ہوتے ہوئے قم کے حوزہ ٔ علمیہ میں تعلیمی مراحل طے کیے۔ جلد ہی آپ فقہ ، اصول فقہ ، فلسفہ، عرفان و سلوک اور اخلاقیات کے شعبوں میں ایک صاحب نظر استاد اور مجتہد کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ شعور کی منزل پر قدم رکھتے ہی امام نے ایرانی سیاست کو مشکل ترین حالات سے دو چار پایااس کفیت کو دیکھتے ہوے عملی سیاست میںواردہو
اورعلانیہ سیاسی جدوجہد کا آغاز اُس بل کی منظوری پر ہوا جسے امیراسد اللہ اعلم کی کا بینہ نے منظور کیا تھا ٨ اکتوبر ١٩٦٢ء کے اس بل میں علاقائی وصوبائی کو نسلوں کے رائے دہندگان اور امیدواروںمیں غیر مسلموں کی شمولیت ، خواتین کو انتخاب میں حصہ لینے کی آزادی اور قرآن مجید کی بجائے آسمانی کتابوں پر حلف اٹھانے کے امور شامل تھے۔ مذکورہ بل کی منظوری کی اطلاع ملتے ہی امام نے قم اور تہران کے دیگر علماء کے ساتھ مشورے کے بعد بھر پور مخالفت کا اعلان کیا۔ حکومت کے خلاف علماء اور طلباء کی جد وجہد رنگ لائی اور نتیجے کے طورپر شاہ کی حکومت نے بل پر عمل درآمدروک دیا۔
3جون ۱1943 ء یعنی یوم عاشورہ کے موقع پر امام کا خطاب انقلاب اسلامی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس تقریر میں آپ نے جرات مندی سے شاہ اور اسرائیل ( امریکی ایجنٹ) کے خفیہ تعلقات کو فاش کیا۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر قم کی شاہرا ہوں اور گلیوں میں (مرگ بر شاہ ) (ما شاہ نمی خواہم) کے نعرے لگاتا رہا۔ تحریک کی آواز کو دبانے کے لیے آپ کے ساتھیوں کو بڑی تعداد میں گرفتار کر لیا گیا اور5جون1963ء کو امام کو بھی اُن کی رہائش گاہ سے گرفتار کر کے تہران بھیج دیا گیا۔ قائدِ انقلاب کی گرفتاری کی خبر پور ے ملک میں پھیل گئی اور حالات کشیدہ ہوگئے ۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامیہ مارشل لاء نافذ کرنے پر مجبور ہوگئی۔
عوام کے مسلسل احتجاج کے نتیجے میں آپ کو 11اگست 1963 کورہا کر دیا گیا۔ اس رہائی نے شمع تو حید کے پروانوں کے جذبات کو اور ہوادی اور وہ اپنے ہر دلعزیز رہنما کے استقبال کو بڑھتے چلے آئےحکومت کے لیے یہ سماں ایک اُلجھن بن گیا کہ وہ آقای ا امام خمینی کو رہا کر ے یا مسلسل قیدمیں رکھے !! اس کا حل یوں تلاش کیا گیا کہ آپ کو نظر بند کر دیا گیا اسد اللہ اعلم کی حکومت تبدیل ہونے کے بعد نئے وزیر اعظم حسن علی منصور نے مصلحتاًعلماء کی طرفداری کرتے ہوئے قائدانقلاب کی نظر بندی ختم کر دی اور انہیں رہا کر دیا۔ دشمن کی مسلسل ناکامی نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر نیت نیک ہو اور سفر کا مقصد واضح اور متعین ہو تو منزل تک پہنچنا مشکل نہیں ہوتا۔
انقلاب کی اس عظیم تحریک میں امام خمینی کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کےاس عظیم تحریک میں آپ کا بیٹا سید مصطفی شہید ہوا لیکن اس شہادت نے آپ کی تحریک کو اور مستحکم اورمضبوط بنادیا۔یکم فروری 1989کی صبح 14سال وطن سے دُور رہنے کے بعد امام خمینی ایران واپس تشریف لائے ۔ ایرانی عوام نے اپنے قائد کے استقبال کے لیے دیددہ و دل بچھا دیے ۔ آپ نے وطن واپس آتے ہی قوم کی حمایت سے حکومت بنانے کا اعلان کیا بختیار کی دم توڑتی ہوئی حکومت نے آخری کوشش کے طور پر فوجی بغاوت کے منصوبے کو عملی جامہ پہنا نے کا حکم دیا ۔ کر فیونافذ ہونے کے باوجود امام نے اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے عوام کو گھروں سے نکل جانے کا حکم دیا۔ تہرانی عوام لبیک کہتی ہوئی سٹرکوں پر نکل آئی اور شاہی حکومت کی آخری کوشش بھی ناکام ہو کر رہ گئی ۔ 11فروری 1979 ء کی صبح کو ایران میں امام خمینی کی تحریک اور اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہوا۔ اور ظالم بادشاہوں کا طویل سلسلہ بادشاہت دم توڑگیا۔