زمیں جلنے لگے تو آسماں سے
ابرِ رحمت کا کوئی چھینٹا برستا ہے، زمیں شاداب ہوتی ہے
خزاں تاراج کر ڈالے گُلستاں کو
تو پھر موسم بدلتا ہے، بہاریں مسکراتی ہیں، چمن پھر لہلہاتے ہیں
اندھیرے حد سے بڑھ جائیں، فضا تاریک ہوجائے
تو یہ قانونِ قُدرت ہے کہ پوپھٹتی، سحر آتی ہے، سُورج بھی نکلتا ہے
کسی بستی میں جب ظلم و تشدد، جبر ہی قانون بن جائے
صداقت جُرم ہو، انسانیت مظلوم ہوجائے، ہوا مسمُوم ہوجائے
تو پھر تاریخ کے اوراق جلتے ہیں
حسین ابن علی کے چاہنے والوں کی غیرت جاگ اُٹھتی ہے
نئی سجتی ہے پھر اک کربلا، پھر خون بہتا ہے
کئی معصوم کٹتے ہیں، بہادر زور آور اور جری پھر کام آتے ہیں
نئی تاریخ بنتی ہے، دنیا سُورج نکلتا هے
نئی آواز آتی ہے
"خمینی رہبرِ ملت"
"خمینی رہبرِ ملت"