انٹرویو

امام خمینی(رح) ایک عظیم راہنما تھے

تمام اسلامی ممالک کو چاہئیے کہ وہ ایران کے طریقے کا اتباع کریں

آپ کا تعارف؟

میرا نام مخدوم محمد احسن ہے اور میں پاکستان کا رہنے والا ہوں میں ایک سنی ہوں اور پاکستان کے ہائی کورٹ کا وکیل ہوں میں وہاں سوفی سلسلہ کے حضرت خواجہ حسین شہید کے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔

 

امام خمینی کی شخصیت کے بارے میں پہلی بار کب آشنا ہوئے؟

میں چوں کہ پاکستان کے ملتان میں ایرانی کلچر ہاؤس میں ایک طالب علم کی حیثیت سے جاتا رہا ہوں فارسی سیکھنے کے لئے تو وہاں پر میں نے ان کے ایک دو پروگرام میں شرکت کی اور دو سال پہلے وہیں میں نے امام خمینی کی برسی کے ایک پروگرام میں شرکت کی تو پہلے تو میں ان کے بارے میں بہت کچھ نہیں جانتا تھا لیکن جب دوسرے سال ان کا پروگرام ہوا چوںکہ وہاں سنی شیعہ ہر مکتب فکر کے لوگ آتے ہیں تو اس میں امام خمینی کی ایک مستند چلائی گئی جس کو میں نے بھی دیکھا اور اسی کے بعد میں امام خمینی سے متاثر ہوا۔ ان کی جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی بیماری اور ناتوانی کے باوجود کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور رکوع اور سجود میں سہارے کے ساتھ نماز پڑھی۔ اور دوسری بات جس نے مجھے متاثر کی ان کا یہ قول ہے کہ جب ان سے انقلابے کے بارے میں پوچھاگیا کہ آپ کے چاہنے والے اب کہا ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ ابھی ماوں کی گود میں ہیں۔

 

آج کے دور میں امام خمینی کے تفکرات نے عالم اسلام پر کتنا اثر ڈالا ہے؟

دیکھیں ہمیں اپنے دل میں کچھ وسعت رکھنی چاہئیے، کچھ لوگ صرف فقہ کی بنیاد پر اس عظیم انسان کی قدر نہیں کرتے ہیں، کتنا عجیب ہے کہ جب کوئی غیر مسلم کوئی اچھا کام کرتا ہے تو ہم اس کی تعریف کرتے ہیں امام خمینی تو مسلم ہیں اور انہوں نے اتنا بڑا کام کیا ہے کہ ایران جب ظلم و بربریت کا بول بالا تھا عوام پس رہی تھی شریعت کے قوانین کو پامال کیا جا رہا تھا فحاشی تھی تو امام خمینی نے سب سے پہلے شاہ کی مخالفت کی اور ان کے پاس کئے گئے قوانین کے خلاف بولا اور ان کو اسلام کے خلاف بتایا اور اس نے امام خمینی کی باتوں کو ایک عام انسان کی بات سمجھا لیکن امام خمینی اس وقت دلوں پر راج کر رہے تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب امام نے آواز اٹھائی تو لوگوں نے ان کا ساتھ دیا اور یہاں پر ایرانی قوم کی بھی تعریف کرنی ہوگی کیوں کہ صرف اچھے رہبر سے ہی کام نہیں چلتا ہے بلکہ اس کے لئے بیدار قوم کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اور اس کے بعد جو انقلاب آیا ہے اس کو میں نہیں سمجھتا کہ صرف ایران کا انقلاب ہے بلکہ یہ پوری مسلم امت کے لئے انقلاب ہے۔

آج آپ مسلم ممالک کے حالات کو دیکھ لیں اسلامی ممالک کا ہر شہری آج پریشان ہے اور ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ کوئی انقلاب ہو کاش ہمیں بھی کوئی ایسا رہبر مل جائے جس سے ہمارے حالات بہتر ہوں۔آج تمام مسلم ممالک میں چاہے وہ پاکستان ہو یا کوئی اور ملک جو بھی اصلاح، شریعت محمدی کے نفاذ، کرپشن کے خلاف، بے حیائی کے خلاف کام کر رہا ہے اور ملک میں اصلاح لانا چاہتا ہے اس کے لئے امام خمینی کی شخصیت ایک نمونہ عمل کی حیثیت رکھتی ہے۔

 

امام خمینی کے تفکرات کے زیر سایہ امت مسلمہ کے موجودہ مسائل کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟

دیکھیں جہاں تک مغرب کا سوال ہے تو اس کے بارے میں ہمارے ہند و پاک کے مشہور شاعر علامہ اقبال نے بھی کہا تھا "خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوے دانش فرنگ---- سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف" مجھ پر مغرب کی بے حیائی، وہاں کے کلچر نے اثر نہیں کیا کیوں کہ میں آنکھ میں مدینہ اور نجف کا شرمہ لگا لیا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے میں یہی کہوں گا کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے، بے حیائی بڑھ رہے ہے مغربی کلچر کا اپنایا جا رہا ہے اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم دین سے دور ہو گئے ہیں ہم اہلبیت کی محبت سے دور ہو گئے ہیں،اگر ہم ان کا دامن نہ چھوڑتے ہو آج ہمارے یہ حالات نہ ہوتے آج ہم نماز بھی پڑھتے ہیں عبادت بھی کرتے ہیں لیکن ہماری نماز اور عبادتوں کی روح ان فرنگیوں نے نکال لی ہے، ہمیں اس روح کو واپس لانا ہوگا، اور یہ روح ہم کو حضور کے اقوال اہلیبیت کے افعال اور امام خمینی کے روش سے حاصل ہوگی۔

 

امام خمینی کے اتحاد بین المسلمین کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے؟

یہ بہت ضروری ہے اور تمام اسلامی ممالک کو چاہئیے کہ وہ ایران کے طریقے کا اتباع کریں اور مسلمانوں کو مغربی غلامانہ ذہن سے باہر نکلنا ہوگا اگر اپنے ممالک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔

امام خمینی نے یوم القدس کی بنیاد رکھ کر دینا کے سیاسی افق پر جو کام کیا ہے وہ کوئی بھی نہ کر سکا اور یہ رہتی دنیا تک کے لیے استکبار کے منہ پر طمانچہ ہے، جس معاملہ فلسطین پر سبھی مسلمان چپ تھے اسے امام خمینی نے یوم القدس کے عنوان سے بین الاقوامی سطح پر اٹھایا اور اس طرح سے آپ نے وحدت اسلامی کا درس دیا۔

 

آپ امام خمینی کے بارے میں ایک جملے میں کیا کہیں گے؟

وہ ایک عظیم راہنما اور اللہ سے ڈرنے والے انسان تھے۔

ای میل کریں