ویسے تو امام کی ساری زندگی، لوگوں کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے گزری، کیونکہ امام ہمیشہ لوگوں کی ہدایت اور نیک امور میں ترقی اور پیشرفت چاہتے تھے۔ اور کبھی بھی انسانیت اور خصوصا مسلمانوں کو ظالم اور جابر بادشاہوں کے تسلط اور ظلم و ستم میں دیکھ کر صبر نہیں کرپاتے تھے۔ قرآن کریم کی آیات کی روسے طاغوت سے دوری (کیونکہ ایسی ظالم اور بے رحم حکومت، جو بشر کو صراط مستقیم سے گمراہ اور منحرف کرتی ہے وہ کبھی بھی انسانیت کے لئے مفید ثابت نہیں ہوسکتی) اور خدا پر ایمان، خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے کی دو بنیادی شرائط ہیں۔
فمن یکفر بالطاغوت و یومن بالله فقد استمسک بالعروة الوثقی لا انفصام لہا..(بقرہ/256)
اس بخش میں ہم امام کے جنگی اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے وہ طریقے اور اصول بیان کریں گے کہ جنہوں نے آپ کی قیادت اور رہبری میں مہترین کردار ادا کیا؛ ان کی نشاندہی کریں گے۔
پہلا اصول: خدا کی راہ میں قیام اور جنگ
دین اسلام میں جنگ کا اصلی ہدف، انسانیت کو جہالت کے تمام ابعاد سے نجات دلوانا اور اسے دین کے سائے میں رہتے ہوئے علم اور معرفت کے نور سے منور کرنا ہے۔ اور اس موضوع پر قرآن مجید کا اشارہ اس طرح ہے:
اذا جاء نصر اللہ و الفتح ؛ ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا...؛(نصر، 1-2)
جب خدا کی طرف سے مدد اور نصرت آئے گی تو آپ دیکھیں گے کہ کس طرح لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور .... اس کے بعد کا مفہوم یہ ہے کہ جب ذمہ داری پوری ہوجائے تو پھر خود کو موت کے لئے تیار کریں۔
حضرت امام (رح) جنگ کو قیام اللہ کا نام دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
دنیا میں صرف ایک ہی جنگ ایسی ہے کہ جو انسانیت کو نجات کی منزل تک پہنچاتی اور وہ خدا کے لئے جنگ ہے۔ اور اسی کا نام قیام اللہ ہے۔ آپ نے اپنی ایک تحریر میں کہ جو آپ نے 1942ء میں سید علی وزیری کی یاد میں لکھی ہے۔ اس میں اپنے قیام کا اصلی ہدف اور اس کی ماہیت کو بیان کیا۔ اور اس کا ایک حصه یہ ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم: قل انما اعظکم بواحدة ان تقوموا لله مثنی و فرادی؛
خدای متعال نے اس آیت میں انسانیت کے لئے ایک آشکار اور کلی قانون بتایا ہے یعنی دنیا کی تاریکیوں سے نکل کر انسانیت کی معراج تک جانے کو بیان کیاہے۔ لہذا یہ بہترین وعظ و نصیحت ہے کہ جسے خداوند متعال نے تمام موعظوں سے چن کر منتخب کیا ہے۔ اور اسی ایک جملے کو انسانیت کے لئے اپنے منظور اور ارادے کے طور پر پیش کیا اور فرمایا: اگر بشر اس پر عمل کرے گا تو اسے دونوں جہانوں کی سعادت مل جائے گی اور وه عمل صرف اور صرف خدا کے لئے قیام کرنا ہے۔
آج عالم کفر ہم پر مسلط ہے اور تمام اسلامی ممالک، اغیار کے تحت فرمان ہو کر رہ گئے ہیں اور اسی طرح یہ بھی ذاتی مفادات کی خاطر، قیام کرنے کا نتیجہ ہے کہ جس نے مسلمانوں کے درمیان وحدت اور برادری کو کم کردیا ہے۔ ایک کروڑ سے زیادہ شیعہ افراد کو ایک دوسرے سے جدا کرکے مٹھی بھر شہوت پرستوں نے انہیں کٹھ پتلی بنایا ہوا ہے۔ ایک جاہل اور ان پڑھ مازندرانی شخص کو کئی کروڑ افراد کا حاکم بنا کر عوام کو شہوت کی جانب ترغیب دلارہے ہیں اور یہاں تک کہ ان کی آنے والی نسلوں کو شکم اور شہوت کے زندان میں قید کرکے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں اور .....(سرگذشت های ویژہ، ج 1، ص 146-148)
قیام اللہ امام (رح) کی نہضت (قیام) کا بنیادی رکن تھا۔ پس آج دنیا کی تمام اسلامی آزادی خواہ تحریکوں کو چاہیے کہ وہ امام (رح) کی اس نہضت کو مشعل راہ قرار دیں تا کہ اپنے نیک اہداف میں کامیاب ہوسکیں۔ امام خمینی (رح) کا قیام، اپنی ابتدا سے لے کر آپ کی زندگی کے آخری لمحات تک صرف اور صرف خدا کی خاطر تھا۔ اس لئے آپ نے اس نہضت کی ابتدا ہی میں، اپنے تمام دوست احباب اور باقی تمام افراد پر یہ واضح کردیا تھا کہ میرا قیام، صرف خدا کی راہ میں ہے اور اس راستے پر پیش آنے والی تمام مشکلات پر ہم خوشنودی خدا کے لئے صبر و تحمل کریں گے۔ چاہے وہ مشکلات جیل میں بند ہونے کی صورت میں ہوں یا قید کے ایام میں باقی سزاؤں کی صورت میں، چاہے رشتہ داروں اور جگر کے ٹکڑوں کو قتل کردینے کی صورت میں ہوں یا جلاوطن کردینے کی صورت میں، ہمیں ان تمام حالتوں میں اپنے موقف پر ثابت قدم رہنا ہوگا اور خدا کی خاطر ان مصائب کو برداشت کرنا ہوگا۔