جنرل قاسم سلیمانی نے آئندہ دو ماہ کے اندر اندر، داعش کے مکمل خاتمے کی نوید، سنا دی ہے۔
اگست 2015ء میں رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے عراق اور شام سمیت خطے کے تمام ممالک کی علاقائی سالمیت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا:
"میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ امریکی حکام، عراق کو تقسیم کرنے کے درپے ہیں؛ بعض افراد نے تعجب کا اظہار کیا لیکن حال ہی میں خود امریکی حکام نے واضح طور پر اعلان کیا ہےکہ وہ عراق کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں"۔
اب جب ہم عراق کے موجودہ حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو اس بات کی سچائی کو زیادہ بہتر انداز میں درک کر سکتے ہیں؛ لیکن عراق میں اس سازش کا آغاز کئے جانے کی اصل وجہ کیا ہے؟
حقیقت یہ ہےکہ امریکہ اور خطے میں ان کی ہمفکر حکومتوں کی جانب سے بےشمار رکاوٹیں کھڑی کئے جانے کے باوجود، عراق اور شام میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی روزافزوں کامیابیوں کے پیش نظر، امریکہ اور اسرائیل کے ان تمام منصوبوں پر پانی پھر گیا جو انہوں نے خطے میں دہشت گرد گروہ، داعش سے درپیش خطرات کے بہانے سے بنا رکھے تھے۔
اسلامی مزاحمتی فورسز نے نہ صرف عراق، شام اور لبنان میں دہشت گرد عناصر کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے بلکہ وسیع علاقے بھی داعش کے قبضے سے آزاد کروا لئے ہیں اور اب صورتحال یہ ہےکہ جنرل قاسم سلیمانی نے آئندہ دو ماہ کے اندر اندر داعش کے مکمل خاتمے کی نوید، بھی سنا دی ہے۔
یہ ایک واضح امر ہےکہ مغربی طاقتیں خاص طور پر امریکہ، مغربی ایشیا میں بدامنی اور انتشار چاہتی ہیں؛ درحقیقت، مغربی ایشیا سے متعلق ان کی ہمیشگی اسٹریٹجی اسی امر پر مشتمل ہے۔
دوسری طرف، یہ انتشار اور بدامنی اس امر کا باعث بنتی ہےکہ اسلامی ممالک اپنے اندرونی مسائل کا شکار ہو کر بین الاقوامی سطح کے ایشوز میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہیں نیز اسرائیل جیسے خطرناک دشمن اور اس سے درپیش خطرات سے بھی غافل ہو جاتے ہیں۔
مزید برآں، ایسے سیاسی ماہرین کی تعداد بہت کم ہے جو مغربی ایشیا میں ایران کے اثر رسوخ میں اضافے کے معترف نہ ہوں۔ اسرائیلی تجزیہ کار، پین ہاس ان باری نے خبردار کیا ہےکہ ایران سپر پاور بنتا جا رہا ہے اور امریکی تجزیہ کار، فرید زکریا کہتا ہےکہ مغربی ایشیا میں ایران کے خاص اثر رسوخ کے مقابلے میں امریکی اثر رسوخ نہ ہونے کے برابر ہے۔
خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کا مقابلہ کرنے کےلئے امریکہ کی سربراہی میں عالمی استعمار اور سعودی عرب کی سربراہی میں اسرائیل سے گٹھ جوڑ کرنے والے ممالک نے مختلف اسٹریٹجیز اپنا رکھی ہیں، لیکن سعودی اور صیہونی حکام، بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے ناپاک عزائم میں سب سے بڑی، رکاوٹ اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ ایران ایسا جمہوری ملک ہے جہاں عوام کی حمایت اور شراکت سے مضبوط سکیورٹی اور پائیدار امن کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اسی وجہ سے ایسا دکھائی دیتا ہےکہ امریکہ اور اس کے حامی ممالک نے داعش کے خاتمے کے بعد خطے کے ممالک کو توڑنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
حال ہی میں عراق کے زیر اختیار کردستان کے علاقے میں خودمختاری کےلئے غیر قانونی ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا ہے۔ امریکہ نے عراق اور شام کے کرد علاقوں سے بہت قریبی اور گہرے تعلقات استوار کر رکھے ہیں جس کے باعث عراق اور شام میں رونما ہونے والے واقعات میں امریکہ کا کردار انتہائی مشکوک نظر آتا ہے۔
امریکہ کی سربراہی میں عالمی سامراجی نظام، اس حق میں ہےکہ مغربی ایشیا کے ممالک میں علیحدگی پسندانہ تحریکیں زور پکڑ جائیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ جس قدر علیحدگی پسند تحریکوں کی شدت میں اضافہ ہوگا اسی قدر خطے میں انتشار اور بدامنی پھیلےگی جس کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو پہنچےگا کیونکہ عوام کی توجہ مسئلہ فلسطین سے ہٹ جائےگی۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ عراق کے زیر انتظام کردستان میں جیسے ہی علیحدگی کےلئے ریفرنڈم کا انعقاد ہوتا ہے فوراً اسرائیل، اس کی حمایت کرتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے واضح طور پر اعلان کیا ہےکہ ہم عراق کی تقسیم کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ کرد، اسرائیل کےلئے ایک اسٹریٹجک خزانہ شمار ہوتے ہیں۔
دوسری طرف، آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 20 جون 2017ء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
"اسلامی جمہوریہ ایران ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے عراق کے ایک حصے کےلئے ریفرنڈم کے انعقاد کا سخت مخالف ہے اور اس کے پیچھے کارفرما عوامل کو عراق کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا دشمن سمجھتا ہے"۔
اگرچہ یہ سازش بھی عراقی عوام کی ہوشیاری کے سبب، کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پائےگی اور یہ منصوبہ بھی شکست کا شکار ہوجائےگا لیکن ایسا دکھائی دیتا ہےکہ خطے میں داعش کے خاتمے کے بعد، عالمی استکبار نے اسے خاص توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے۔
حوالہ: islamtimes.org