تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، ترک صدر رجب طیب اردغان نے اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ تہران میں امام خامنہ ای سے ملاقات کی ہے۔
رہبرمعظم نے کردستان میں ہونے والی ریفرنڈم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ پورے خطے کے لئے خطرناک ہے کیونکہ امریکہ اور اسرائیل خطے میں ایک نئے اسرائیل کا وجود چاہتے ہیں۔
رہبرمعظم نے ایران-ترک تعلقات کے بارے میں فرمایا: "اسلامی جمہوریہ ایران اور ترکی کے درمیان تعاون اور مفاہمت عالم اسلام کے اہم مسائل کے حل کے لئے انتہائی اہم اور موثر ہے۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا: کردستان میں منعقدہ ریفرنڈم سے صرف امریکہ اور ناجائز صہیونی ریاست کو فائدہ ملے گا کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ خطے میں ایک اور اسرائیل کا قیام عمل میں لایا جائے.
سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے مشرقی ایشیا اور میانمار سے لے کر شمالی افریقہ تک عالم اسلام کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "ان تمام تر مشکلات کو مدنظر رکھ کر ایران اور ترکی کسی مشترکہ ایجنڈے پر کام کریں تو دونوں ملکوں سمیت پورے عالم اسلام کو اس کا فائدہ ہوگا۔"
رہبر معظم نے ایران اور ترکی کے درمیان اقتصادی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "ایران اور ترکی کے درمیان تجارت کے بے پناہ مواقع موجود ہیں لیکن اس میں کوئی خاطرخواہ کام نہیں ہوا ہے، دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے فروغ کے لئے کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔"
رہبرمعظم نے ترک صدر اور ان کے ہمراہ اعلیٰ حکام کے وفد سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "دشمن اسلامی جمہوری ایران اور ترکی کو ایک دوسرے سے دور کرنا چاہتا ہے، امریکہ ہمیشہ ایک مخصوص مسئلے کو ایران اور ترکی کے خلاف استفادہ کرنا چاہتا ہے لہذا امریکہ اور یورپی ممالک اور ان کے موقف پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
سپریم لیڈر نے کہا: "عراقی صوبہ کردستان کے مسئلے پر امریکہ اور یورپی ممالک خطے میں ایک نئے اسرائیل کا وجود چاہتے ہیں۔"
انہوں نے ترک صدر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "ان مسائل کے حل کے لئے ایران اور ترکی کو ایک طویل المدتی منصوبہ تیار کرنا ہوگا اور دونوں ممالک کو مل کر خطے کے سیاسی مسائل کا مقابلہ کرنا ہوگا۔"
ترک صدر نے ایران اور ترکی کے درمیان تجارت کے بارے میں کہا کہ ترکی تجارتی حجم کو 30 ارب ڈالر تک پہنچانے کے لئے پرعزم ہے۔