جنرل سلیمانی

داعش کی نابودی کا جشن دو مہینوں میں منائیں گے

شہید مرتضی حسین پور کے چہلم کے موقع پر

ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق سپاہ پاسداران کی قدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی نے محاذ مزاحمت کے کمانڈر شہید مرتضی حسین پور کی شہادت کے چہلم کے موقع پر صوبہ گیلان کے شہر لنگرود کے نواح میں شلمان کے مقبرہ شہداء میں منعقدہ مجلس سے خطاب کرتے ہوئے اس مجلس کے منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔

جنرل سلیمانی کے خطاب کے اہم نکات:

. محرم الحرام کی آمد آمد ہے، ہم امام حسین علیہ السلام کے شیعہ ہیں اور اپنی ماؤں کے آنسؤوں کے قطروں تلے پروان چڑھے ہيں، محرم کا مہینہ خون اور شہادت کا مہینہ اور غیرت، عظمت، جوانمردی اور ایثار کی علامت ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے کائنات کے سارے حریت پسندوں کو ایثار، شہادت اور کرامت کا درس دیا ہے۔

. امام حسین علیہ السلام صرف پیروان اہل بیت(ع) ہی کے امام و راہنما نہیں ہیں. میں ایک کتاب کی ورق گردانی کررہا تھا جس میں امام حسین(ع) کے بارے میں مختلف مکاتب اور مذاہب و ادیان کی شخصیات اور راہنماؤں کے اقوال نقل ہوئے تھے۔ یہ کتاب ہمارے لئے یقینا مقتل اور عزاداری کی کتاب تھی۔ اس کتاب میں، میں نے پاکستان کے قائد اعظم محمد علی جناح کا ایک قول دیکھا جنہوں نے کہا تھا: ہم پاکستانی شیعہ ہیں اور ہم نے شیعہ ماؤں اور مکتب تشیع میں پرورش پائی ہے۔

ایک عیسائی پروفیسر نے کہا تھا: عیسائیت امام حسین(ع) کے بغیر پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچتی؛ ہر آسمانی اور غیر آسمانی مکتب کے پاس اگر امام حسین(ع) جیسی شخصیت نہ تو وہ دین اور مکتب آسمانی نہيں، بلکہ زمینی ہے اور اس میں بہشت کا تصور ممکن نہيں ہے۔ حق مجھے عیسائی میں اس طرح سے ابھرا کہ لوگوں نے امام حسین(ع) کے ساتھ شدید محبت کی خاطر مجھے شیعۂ علی کا عنوان دیا۔ اے زمین اور اے آسمان! گواہ رہو کہ میں علی(ع) سے محبت کرتا ہوں۔ مجھ عیسائی کو امام حسین(ع) نے رلایا اور اشکوں کے قطرے میری آنکھوں کے افق سے طلوع ہوئے اور چمکے، یہ بہت حزن و غم کا مقام ہے۔ ہوا؛ بےشک جو دور سے آگ کو دیکھتا ہے اس شخص کی طرح نہیں ہے جو لکڑیوں کے ساتھ آگ میں جلتا ہے۔

. شہداء سب کے سب اعلی مقام و منزلت رکھتے ہیں اور اعلی مراتب و مدارج کے مالک ہیں گوکہ ان کی قدریں مختلف ہیں۔ جب شہید مطہری نے جام شہادت نوش کیا تو امام خمینی(رح) نے فرمایا: میری زندگی کا ثمرہ دنیا سے چلا گیا اور شہید بہشتی کی شہادت کے وقت انہیں ایک ملت سے تشبیہ دی۔ شہداء معاشرے پر مختلف کے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

. آج شہید مرتضی حسین پور شلمانی کے سسر نے مجھ سے درخواست کی کہ انہیں مدافع حرم کے طور پر بھجوا دیا جائے اور ان کی بیٹی کو شہید کے بچے کی ماں ہے، نے بھی مجھ سے درخواست کی کہ ان کے والد کو مدافع حرم کے طور پر روانہ کیا جائے۔

. شہید حججی نے خنجر تلے بہت اعلی مزاحمت کا مظاہرہ کیا اور یہ کردار سب کے لئے ایک باعث افتخار ہے۔ شہید حججی نے میدان جنگ میں دشمن کے خنجر تلے بھی دشمن کی پروا نہ کی اور ایک دیندار، ولائی اور ایرانی نوجوان کی خوبصورت تصویر دنیا کے سامنے پیش کی۔ جتنے بھی لوگ شام کی جنگ میں کردار ادا کررہے ہیں، مسلط کردہ جنگ کے ایام کی طرح رضاکارانہ طور پر ـ التجائیں کرکے ـ اس جنگ میں حاضر ہوئے ہیں۔

. آج عراق، افغانستان اور پاکستان سمیت جن ممالک کے مختلف افراد مدافع حرم کے طور پر شام آئے ہیں، سب کے سب بغیر کسی استثناء کے، رضاکارانہ طور پر آئے ہیں ۔۔۔ شہداء بہت زيرک اور ہوشیار ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب و کامران ہیں۔ ذکاوت اور ہوشیاری صرف یہ نہیں ہے کہ "میں دنیا اور آخرت کے درمیان کس طرح ابدی کامیابی حاصل کروں"، بلکہ کامیابی اس میں ہے کہ ایک جبری موت اور اختیاری موت کے درمیان، انسان کس طرح رضاکارانہ طور پر اختیاری موت کو پسند کرے۔

. بہترین کشش شہادت کی کشش ہے، یعنی ابدی حیات، یعنی یہی جو امام خمینی(رح) نے فرمایا کہ "ہم شہداء کے رتبے کے ادراک سے عاجز ہیں"۔ میں نے بہت سوں کو دیکھا جو دفاع مقدس کے ایام میں اپنے شناختی کارڈ میں تاریخ بدلتے تھے تا کہ ان کی عمریں 13 یا 15 سال سے زيادہ ہوجائیں اور وہ میدان جنگ میں حاضر ہوسکیں۔

. مظلومین کی حمایت کے لئے ایثار اور قربانی میں انسانی احساس اور جذبات کا اہم کردار ہے ۔۔۔ انسانی عوامل بہت اہم ہیں، آج آپ ٹیلی ویژن کے اسکرین پر برما کے واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو آپ کا کیا حال ہوتا ہے؟ ایسے انسان کی طرح جس کو آگ پر رکھے توے پر رکھا گیا ہو۔۔۔ سینکڑوں افراد ہم سے پوچھتے ہیں کہ "تم کچھ کرتے کیوں نہیں؟"، یہ انسانی ضمیر اور انسانی جذبہ ہے۔ جب آپ دیکھتے ہیں کہ 10 یا 15 لاکھ کے ایک شہر کا محاصرہ کیا جاتا ہے تو کوئی بھی باضمیر انسان برداشت نہیں کرپاتا، اٹھتا ہے اور حرکت کرتا ہے۔ اگر کوئی کسی مظلوم کی مددخواہی کی صدا سنے اور اس کی مدد کو نہ اٹھے تو وہ مسلمان نہیں ہے۔

. دفاع حرم میں ایرانی نوجوانوں کے لئے اہم ترین کشش "شہادت طلبی" ہے اور یہی امر محاذ مزاحمت اور حریم اہل بیت(ع) کے دفاع کی طرف تمام ]غیر ایرانی] نوجوانوں کے شدید رجحان کا سبب بھی ہے۔

. عراق اور شام میں نوجوانوں کے اشتیاق کا ایک سبب "ضمیر اور انسانیت" ہے، ایران کے بابصیرت، مؤمن اور انقلابی نوجوان جب دیکھتے ہیں کہ شام اور عراق کے شہروں میں مظلوم انسان بھیڑیوں کے محاصرے میں ہیں، تو وہ ایثار اور جان نثاری کے لئے قدم بڑھاتے ہیں۔

. ایرانی نوجوانوں نے زیرکی کے ساتھ اسلامی ایران کے لئے داعش کے خطرات کا ادراک کیا اور آج ہمارے نوجوان دل و جان سےایثار و شہادت کی تعلیمات کا ادراک کرتے ہيں اور شہدائے مدافع حرم ان تعلیمات کی ترویج میں کردار ادا کررہے ہيں۔  

. بغض مواقع پر سفارتکاری مؤثر نہیں رہتی۔۔۔ ہم نے حکومتی سطح پر فیصلہ کیا کہ عراق اور شام کی جنگوں میں کردار ادا کریں، ڈٹ جائیں اور مدد کریں۔ کئی مسائل اہم ہیں اور یہ مسائل موجود ہیں جن کا حل سفارتکاری کے راستے سے ممکن نہیں ہے یعنی یہ کہ سفارتکاری کی کیل کسی بھی ہتھوڑے سے اس مسئلے کے نہایت سخت پتھر میں ٹھونکنا ممکن نہیں ہے۔

. اگر بعض امور کا حل سفارتکاری سے ممکن ہوتا تو امام علی اور امام حسین علیہما السلام سفارتکاری کو سب سے زيادہ بہتر جانتے تھے؛ سوال یہ ہے کہ ان بزرگواروں نے بعض مواقع پر تلوار کیوں سونت لی؟ امام حسین(ع) نے اپنے اور اپنے بچوں کے خون سے اسلام کا دفاع کیوں کیا؟ کیونکہ وہ منطق سفارتکاری والی منطق نہیں تھی۔۔۔ خظے کے دہشت گردوں کے ساتھ مقابلے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، جب مخالف فریق کی منطق یہ ہے کہ آپ دینی لحاظ سے واجب القتل ہیں اور آپ میں سے اتنے افراد کا قتل جنت کو واجب کردیتا ہے تو کیا یہاں سفارتکاری کا کوئي امکان ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی مسجد یا ناصریہ شہر کے ریستوران پر خودکش دھماکے کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ اس ریستوران میں نشانہ بننے والے افراد کیا میدان جنگ میں تھے؟ کیا انھوں نے جنگی لباس پہنا ہوا تھا؟ یہ سب بچے اور خواتین اور عام لوگ تھے جو میدان جنگ سے 500 کلومیٹر دور تھے، کھانا کھا رہے تھے لیکن ان میں سے 100 کے قریب افراد قتل کئے گئے!

. آیت اللہ سیستانی کے حکم جہاد پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، یہ دیکھنا ہے کہ بزرگ شیعہ عالم اور مرجع تقلید آیت اللہ سیستانی نے جہاد کا عظیم حکم کیوں جاری کیا؟ اس لئے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ ولی فقیہ، اور ہمارے معاشرے کے آج کے رہبر و امام اس خطرناک اور خبیث وجود کی جڑیں اکھاڑنے پر تاکید کیوں کررہے ہیں؟ ان کا اصل ہدف یہ ہے کہ سب کو اپنے راستے سے ہٹا دیں اور ہم تک پہنچ جائیں۔ اس خبیث نے جب عراق و شام میں حکومت کے قیام کا اعلان کیا، یہ اعلان ایران اسلامی کی طرف اس کا پہلا پل تھا۔ داعش سمجھتی ہے کہ عراق اور شام ایران کی طر ایک پل ہے، کیا ہم ایسا کرسکتے تھے کہ بیٹھ جائیں اور دیکھ لیں کہ عراق اور شام کب ان کے قبضے میں چلے جاتے ہیں اور وہ کب ہم تک پہنچتے ہیں؟ ان کا ارادہ یہی تھا کہ ایران کی سرحدوں میں داخل ہوکر شام اور عراق کے عوام کی طرح ایران کے عوام کا بھی قتل عام کریں، جبکہ کوئی بھی صاحب فکر انسان اس صورت حال کو قبول نہیں کرسکتا کہ بیٹھ جائے اور کوئی بھی رد عمل نہ دکھائے۔ چنانچہ اس تکفیری دہشت گرد فتنے کا گلا پیدائش سے قبل ہی گھونٹنا پڑے گا۔

. دشمن منجملہ داعش کا اصل ہدف ایران پر قبضہ کرنا تھا۔۔۔ صدام نے ہماری سرزمین میں گھس کر 20000 کیلومیٹر رقبے پر قبضہ کیا اور ہمارے پاس قابضین کے آگے مزاحمت اور جان و خون و کا نذرانہ پیش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور مسلط کردہ جنگ میں دو لاکھ شہیدوں کا نذرانہ پیش کرنے کا ایک سبب یہی تھا۔

. فلسطینی قوم بھی جنگ و جہاد کے بغیر فلسطین کو آزاد نہيں کراسکتی اور اس راہ میں انہیں قربانیاں دینا پڑیں گی۔

. ایک سوال یہ ہے کہ عرب ملکوں میں اسلامی بیداری کی تحریک ایک انقلاب میں تبدیل کیوں نہیں ہوسکی؟ وجہ یہ تھی کہ عوام اپنے راہنماؤں سے بہت آگے تھے اور اخوان المسلمین کی شکست کی وجہ بھی یہی ہے۔ جبکہ گذشتہ 40 برسوں میں ہماری کامیابیوں کا سبب رہبر معظم کی اعلی قیادت ہے۔

. ممتاز شخصیات، فنکار اور حکام کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر ایثار اور جان نثاری کی ثقافت کی قدردانی نہ کی جائے تو معاشرے کو نقصان پہنچے گا اور ہمیں مختلف پہلؤوں میں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ انسان کو دینی، انسانی اور قومی سطح پر صاحب غیرت ہونا چاہئے۔

. ایثار اور قربانی کا بیچ معاشرے کی تمام سطوح میں بونا چاہئے اور ایثار و قربانی کو معاشرے کے رویوں میں جگہ دینے کی ضرورت ہے ۔۔۔ ہم اپنی قومیت اور تہذیب کے بارے میں جو بھی دعوے کریں، دیکھنا پڑے گا کہ ہم اپنی جامعات میں کس قسم کے نوجوانوں کی تربیت کررہے ہیں؟ اگر ہمارے معاشرے میں کل کلاں با غیرت نوجوان نہ ہوں تو یہ معاشرہ کسی بھی بیرونی منصوبے کے مقابلے میں نیست و نابود ہوگا۔ یہ ہمارا قومی فریضہ ہے کہ ہم ایثار و شہادت کی تبلیغ و ترویج کریں۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی شہید سے محبت نہ کرے؟ ایثار کا بیج ہر اس مقام پر بونا چاہئے حہاں ہمارے ہزاروں نوجوان پروان چڑھتے ہيں۔

. سوال یہ ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی دفاع مقدس کی ثقافت کی ترویج پر مسلسل تاکید کیوں کررہے ہیں اور سب سے زیادہ دفاع مقدس کے موضوع پر تالیف شدہ کتب کا مطالعہ کیوں کرتے ہیں؟ اور جواب یہ ہے کہ وہ ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں کہ دفاع مقدس کی ثقافت ہم سب کی نجات کا سبب ہے لہذا اس سلسلے میں سب کو کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

. ایک سوال یہ ہے کہ دشمن ہماری سرزمین پر جارحیت کرنے کی جرات کیوں نہيں کرسکتے؟ اور اس کا جواب یہ ہے کہ دشمن کی عدم جارحیت کا اصل سبب وہ کامیاب تجربہ ہے جو ہماری قوم نے دفاع مقدس اور آج عراق اور شام میں حاصل کیا ہے۔ دشمن نے اس جنگ کو شیعہ اور سنی لڑائی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی لیکن آج تاریخ کے تمام ادوار سے کہیں زیادہ شیعہ اور سنی کے درمیان محبت پائی جاتی ہے۔


آخری نکتہ:

. شہید حججی کی شہادت پر میں نے ایک پیغام جاری کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ہم اگلے تین مہینوں تک داعش کی جڑیں سُکھا دیں گے؛ اب بھی کہتا ہوں کہ داعش کی نابودی بہت قریب ہے اور اگلے دو مہینوں تک اس شجرہ خبیثہ کی نابودی کا جشن منائیں گے اور ایران، شام، عراق اور روس کو یہ جشن بپا کرنا چاہئے۔

ای میل کریں