1979ء میں ایران میں رونما ہونے والا اسلامی انقلاب درحقیقت جدید جاہلیت اور عالمی سامراجی نظام کے دور میں انقلابی اسلام کا ایسا معجزہ تھا جس نے ایک عظیم زلزلے کی مانند عالمی سامراجی نظام کے تمام ستونوں کو ہلا کر رکھ دیا اور یہ نظام نابودی کے دہانے تک جا پہنچا۔ اب بھی بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رح کی یہ للکار ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے کہ: "بڑی طاقتوں کے رعب و دبدبے سے خوفزدہ نہ ہوں کیونکہ یہ صدی خداوند قادر کی مشیت سے مستکبرین پر مستضعفین اور باطل پر حق کے غلبے کی صدی ہے۔" اسی طرح اس بت شکن اور ابراہیم زمان نے فرمایا: "میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اسلام بڑی طاقتوں کو ذلت آمیز شکست دے گا، اسلام اپنے دائرہ کار کے اندر اور باہر درپیش بڑی رکاوٹوں کو ایک ایک کر کے برطرف کر دے گا اور دنیا کے کلیدی مورچے فتح کر لے گا۔" (صحیفہ نور، جلد 12، صفحہ 125)
معروف برطانوی مفکر، آرنلڈ ٹائن بی (Arnold J. Toynbee) نے دوسری عالمی جنگ کے آخر میں تہذیبوں کے ظہور اور زوال کے بارے میں کہا تھا: "انسانی تاریخ کے دوران اب تک کل 15 قسم کی انسانی تہذیبوں نے جنم لیا ہے۔ ان میں سے اکثر تہذیبیں تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو چکی ہیں اور ان کا وجود ختم ہو چکا ہے۔" آرنلڈ ٹائن بی جب اسلامی تہذیب تک پہنچتا ہے تو کہتا ہے: "اسلامی تہذیب ہر گز پرانی نہیں ہوئی اور ایسے شیر کی مانند ہے جو فی الحال نڈھال ہو چکا ہے اور اگر اسی حال پر باقی رہے تو مغربی دنیا کو بھی کوئی فکر لاحق نہیں ہو گی لیکن اگر اسلام بیدار ہو گیا تو مغرب کو جان لینا چاہئے کہ اس کے انتہائی مشکل دن شروع ہو گئے ہیں۔"
مغربی طاقتوں نے اس سوئے ہوئے شیر کو جاگنے سے روکنے کیلئے دسیوں منصوبے بنائے جن میں سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ، اسلامی ممالک کو سرحدی تنازعات کی بنیاد پر تقسیم کرنا، اسلامی دنیا میں قومی و مذہبی جنگوں کا آغاز، اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی تشکیل وغیرہ شامل ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کو نہیں روک پائے۔ برطانوی ماہر سماجیات انتھونی گیڈنز (Anthony Giddens) کہتے ہیں کہ 1980ء کے عشرے سے پہلے مغربی دنیا یہ تصور کرتی تھی کہ دنیا سیکولرآئزیشن کی جانب گامزن ہو گی لیکن اسلامی انقلاب کی برکت سے دنیا مذہبی ہو رہی ہے اور روحانیت کی جانب واپس پلٹ رہی ہے۔ اسی طرح رچرڈ نکسن (Richard Nixon) کا عقیدہ ہے کہ عالم بشریت انقلاب اسلامی کے زیر اثر یقین نہ آنے والی تیزی سے روحانیت اور الہی ادیان خاص طور پر اسلام کی جانب حرکت کر رہا ہے۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے آغاز سے ہی امریکی حکام نے اسلامی جمہوریہ ایران کا مقابلہ کرنے کیلئے متعدد اسٹریٹجیز کو آزمایا اور بھاری اخراجات برداشت کرنے کے باوجود اس کی یہ تمام اسٹریٹجیز شکست سے روبرو ہوئیں۔ امریکہ نے ہر اسٹریٹجی کی ناکامی کے بعد نئی اسٹریٹجی کا رخ کیا اور اب وہ اپنی تمام اسٹریٹجیز کی ناکامی کا اعتراف کرتا نظر آتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی بابرکت عمر کے آغاز میں امریکہ نے سابق سوویت یونین سے سرد جنگ کے تناظر میں "بغاوت اور تبدیلی" کی اسٹریٹجی اپنائی۔ اس اسٹریٹجی کی رو سے امریکی حکام نے نئے تشکیل پانے والے اسلامی نظام کے اہم حکومتی عہدوں پر مغرب نواز اور قوم پرست افراد لگائے جانے کا منصوبہ بنایا تاکہ اس طرح کچھ عرصے تک انقلاب کی راہ اسلامی اقدار سے ہٹا کر مغربی اقدار کی جانب موڑ دی جائے لیکن یہ امریکی اسٹریٹجی اس وقت مکمل ناکامی کا شکار ہو گئی جب قوم پرست عناصر انقلابی عناصر کے مقابلے میں بری طرح شکست سے روبرو ہو گئے۔ اس کے بعد امریکی حکام نے "فوجی اسٹریٹجی" اپنائی اور عراق کے صدر صدام حسین کو ایران کے خلاف جنگ پر اکسانے کے علاوہ اس کی ہر قسم کی فوجی، مالی اور انٹیلی جنس مدد کا آغاز کر دیا۔
سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد مغربی طاقتوں نے انقلاب اسلامی کے پیغام اور اسلامی بیداری کی لہر کو زیادہ اچھے انداز میں محسوس کرنا شروع کر دیا۔ وہ دیکھ رہی تھیں کہ عالم اسلام کا جیوپولیٹیکل اور روحانی مرکز ہونے کے ناطے ایران سے اسلامی بیداری کی امواج تمام اسلامی ممالک خاص طور پر مغربی ایشیا میں منتقل ہو رہی ہیں لہذا انہوں نے فوراً اپنی اسٹریٹجی تبدیل کی اور نرم جنگ کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا۔ اس بنیاد پر امریکی حکام نے اپنے بعض انتہائی ماہر اسٹریٹجسٹ حضرات کی مدد سے بہت کم مراعات کے ساتھ ایران کو اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 598 قبول کرنے کی پیشکش کی جس کے نتیجے میں ایران عراق جنگ ختم ہو گئی اور امریکہ کی نئی نرم اسٹریٹجی کا آغاز ہو گیا۔
گذشتہ تین عشروں کے دوران شیطان بزرگ امریکہ نے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی بقا کیلئے اسرائیلی ماہر ینون (Yinon) کے نظریئے پر عمل کیا ہے جس کے تحت مغربی ایشیا میں بلقان جیسی صورتحال ایجاد کرنا طے کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ "ڈیٹرنس (روک تھام)"، "پابندیوں میں شدت اور دباو"، "جاسوسی اور تبدیلی"، "مشترکہ مفادات"، "خطے کی تھانیداری اور شراکت" اور "فلسطین پر سودے بازی" پر مشتمل نرم اسٹریٹجیز کے ذریعے ایران کی اسٹریٹجک طاقت کو روکنے کی کوشش کی گئی لیکن ہر مرحلے پر اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت اور فرزندان امام خمینی رح کی صلابت سے روبرو ہو کر پسپائی اختیار کی جس کے نتیجے میں ایران کی تزویراتی گہرائی میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا۔
آج مغرب کی لبرل سرمایہ دارانہ سلطنت کی نابودی کے آثار ظاہر ہونے کے بعد دنیا "اسٹریٹجک تبدیلی" سے گزر رہی ہے اور اسلامی جمہوریہ کے مقدس نظام کی برتری اور اس کی تزویراتی گہرائی میں اضافے کے اسباب مہیا ہو چکے ہیں۔ اسی صورتحال کے پیش نظر امریکہ نے اپنی توجہ مشرق وسطی سے ہٹا کر ایشیا پر مرکوز کر لی ہے اور "اٹلانٹک خطے" سے نکل کر "پیسفک خطے" کا رخ کر لیا ہے۔ اس نئی اسٹریٹجی کے مطابق امریکہ مشرقی اور مغربی ایشیا اور کوریا میں بحران کے مراکز ایجاد کرنا چاہتا ہے تاکہ شاید اس اسٹریٹجک اور جیوپولیٹیکل تبدیلی کے ذریعے بدستور دیگر ایشیائی طاقتوں پر اپنی برتری ثابت کر سکے۔ لیکن درج ذیل زمینی حقائق کسی اور حقیقت کو بیان کرتے نظر آتے ہیں:
1) ۔ سیاست اور اقتصاد کے میدان کے کھلاڑی تبدیل ہو چکے ہیں،
2) ۔ سائیکس پیکو قرارداد کا مدنظر آرڈر شدید انتشار کا شکار ہو چکا ہے،
3) ۔ عرب آرڈر بھی دیوالیہ ہو کر مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے اور عرب معاہدوں کے تمام فریم ورکس نابود ہو چکے ہیں،
4) ۔ مصر کا اقتدار مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے،
5) ۔ عرب لیگ کے اصلی کھلاڑی یعنی عراق اور شام میدان سے باہر ہیں،
6) ۔ عالمی طاقتیں بنیادی تبدیلیوں کا شکار ہو چکی ہیں،
7) ۔ مغربی طاقتیں (امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی) شدید اختلافات کا شکار ہیں،
8) ۔ تین براعظموں میں نئی طاقتیں (ترکی اور ایران، برازیل اور میکسیکو وغیرہ) ابھر کر سامنے آ رہی ہیں،
9) ۔ صدام حسین، حسنی مبارک و دیگر ڈکٹیٹر رژیموں کے خاتمے کا فائدہ ایران ہو ہوا ہے،
10) ۔ روس اور چین نے بین الاقوامی طاقت میں ایران کا پلڑا بھاری کر دیا ہے۔
مذکورہ بالا موارد کے ساتھ ساتھ ایران کی بعض جیوپولیٹیکل خصوصیات مغرب خاص طور پر امریکہ کی طاقت میں کمی اور ایران کے اثرورسوخ میں اضافے کا سبب بنی ہیں۔ ایران کی یہ خصوصیات درج ذیل ہیں:
1) ۔ ایران کی جیوپولیٹیکل اور جیواسٹریٹجک پوزیشن،
2) ۔ ایران کی مادی اور روحانی طاقت،
3) ۔ ایران کی سپراسٹریٹجک لیڈرشپ کی طاقت،
4) ۔ قومی، علاقائی اور بین الاقوامی سیاسی فیصلوں میں پختگی کا مظاہرہ،
5) ۔ اندرونی بحرانوں اور مشکلات پر قابو پانے میں ایران کی بھرپور طاقت اور صلاحیتیں،
6) ۔ اپنے خلاف تھونپی گئی جنگ اور مختلف قسم کی بغاوتوں کا مقابلہ کرنے میں طاقت کا مظاہرہ،
7) ۔ مزاحمتی اقتصاد کے ذریعے ملک چلانے کی صلاحیت،
8) ۔ مغربی ایشیا میں مغربی طاقتوں کی منحوس سازشوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت اور نشانہ بننے والے ممالک (شام، عراق، افغانستان، لبنان) کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے صورتحال پر قابو پانے کی صلاحیت،
9) ۔ داعش جیسے امریکی مذہبی فتنوں کو ختم کرنے کی طاقت،
10) ۔ مغربی طاقتوں کا مدنظر گریٹر مڈل ایسٹ منصوبہ ناکام بنا کر اپنا مطلوبہ مشرق وسطی تعمیر کرنے کی طاقت اور صلاحیت۔
مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ مغربی ایشیا میں ایران کو امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک پر بھرپور برتری حاصل ہے۔ دوسری طرف عالمی استکباری نظام کا مرکز امریکہ بری طرح شکست اور ناکامی کا شکار ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر امریکہ کا اثرورسوخ تیزی سے کم ہو رہا ہے اور مشرق وسطی جیسے اسٹریٹجک خطے کا کنٹرول اس کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ یہ تمام حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ شیطان بزرگ امریکہ بہت جلد اپنی موت آپ مرنے والا ہے اور دنیا ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے والی ہے۔
تحریر: سید عبداللہ متولیان