علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل کی اسلام ٹائمز کو انٹرویو
اسلام ٹائمز: نواز شریف نااہل ہونے کے بعد جے ٹی روڈ پر مارچ کرتے ہوئے لاہور پہنچے ہیں اور سپریم کورٹ پر کڑی تنقید کی ہے۔ اس سارے معاملے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
علامہ ناصر عباس جعفری: جی میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ کے نادر واقعات میں سے ایک یہ ہےکہ پنجاب کا وزیر اعظم، پنجاب سے تعلق رکھنے والے پانچوں ججز کے ہاتھوں پہلی بار نااہل ہوا ہے اور اس کے خلاف پہلا عدالتی فیصلہ آیا ہے۔
نواز شریف کو اپنے دفاع کا بھرپور موقع دیا گیا تاکہ اس حوالے سے کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی رنہ رہے۔
دوسری بات یہ ہےکہ بلآخر حکمرانوں کے پاس حکمرانی اور حکومت کرنے کی اخلاقی بنیادیں بھی ہونی چاہیئے۔ مہذب معاشروں میں حکومت کرنے کی اخلاقی اقدار بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، لہٰذا ایک وزیر اعظم جھوٹ بولے اور اس کا جرم ثابت ہو جائے تو پھر وہ شخص قابل اعتماد نہیں ہوسکتا۔
پاکستان میں یہ ہوتا رہا ہےکہ کیس جب کورٹ میں جاتا ہے تو اس کو نمٹانے میں اتنا طولانی عرصہ لگ جاتا ہےکہ سالہا سال گزار جانے کے باوجود بھی فیصلے نہیں ہو پاتے، یہ ایک طاقتور آدمی کا احتساب تھا، اس کے ٹائم کی حد رکھنا اس بات کی دلیل ہےکہ خود عدالت کے اندار بہت بڑی تبدیلیاں ممکن ہیں اور باقیوں کو بھی یہ پیغام ہےکہ پاکستان کے اندر اخلاقی گراوٹ کا شکار اور کرپٹ سیاسی لوگوں کے احتساب کی باری آنے والی ہے۔
اسلام ٹائمز: کیا آپ کو لگ رہا ہےکہ اب سب کا بے رحمانہ احتساب ہوگا؟
علامہ جعفری: اب ان کو اندازہ ہوگیا ہے، یہ جو احتساب کا عمل شروع ہوا ہے اور اب ان کے خلاف ریفرنسز دائر ہونے والے ہیں تو نیب والے ان کی ہر چیز سامنے لے آئیں گے۔
نواز شریف کےساتھ منسلک کرپٹ ٹولہ سمجھتا ہےکہ احتساب کا عمل نواز شریف کی حد تک ہی رک جانا چاہیئے۔ یہی وجہ ہےکہ نواز شریف اپنی باقی ماندہ دمڑی اور چمڑی بچانے کےلئے سڑکوں پر آیا ہے۔ لوگوں کے سامنے جھوٹ بولنے اور عدلیہ پر پریشر ڈالنے کےلئے سب کیا جا رہا ہے۔
اسلام ٹائمز: میاں صاحب نے جی ٹی روڈ پر ایک ہی سوال 21 مرتبہ دھرایا ہےکہ مجھے کیوں نکالا؟ کیا پانامہ کیس میں اس کا جواب موجود نہیں؟
علامہ جعفری: جی بالکل، نواز شریف اب کہہ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا، مجھے کروڑوں لوگوں نے ووٹ دے کر وزیر اعظم بنایا ہے اور پانچ ججوں نے نکال دیا ہے؛ ایک سوال ہےکہ اگر ایک حاکم وقت ہو اور وہ کسی بےگناہ کو قتل کردے اور عدالت اس کو پھانسی کا حکم دیدے تو کیا وہ یہ سوال اٹھانے کا مجاز ہےکہ مجھے کیوں پھانسی لگا رہے ہو؟
آپ کا جرم یہ ہےکہ آپ نے سپریم کورٹ سے جھوٹ بولا ہے اور کرپشن کی ہے؛ اپنے آپ کو الزامات سے صاف نہیں کر پائے تو اب کہہ رہے ہو کہ مجھے کیوں نکالا ہے؟
اسلام ٹائمز: نواز شریف ججز کو ٹارگٹ کئے ہوئے ہیں، اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
علامہ جعفری: نواز شریف نہیں چاہتا پاکستان کا عدالتی نظام بہتر اور طاقتور ہو یا اس ملک میں قانون اور آئین کے مطابق فیصلے ہوں، یہ چیزیں نواز شریف کو برداشت نہیں ہیں، یہ سمجھتے تھے کہ ان کے بعد ان کی بیٹی حکومت کرےگی۔ اب پاکستان کے عوام جانتے ہیں کہ آپ کو کیوں نکلا ہے، لہٰذا اتنا معصوم بننیں کی کوشش نہ کریں۔
سچ یہ ہےکہ ان کو خدا نے پکڑا ہے۔ انہوں نے ماڈل ٹاون میں ظلم و بربریت کی نئی مثال قائم کی، چودہ افراد کو دن دیہاڑے شہید کرایا، خواتین کے منہ میں گولیاں مروائی گئیں۔ یہ وہ آدمی ہے جس کے اُسامہ بن لادن کے ساتھ رابطے تھے۔
میرا ایک سوال ہےکہ اگر کوئی بندہ قتل کرے اور عدلت اس کے خلاف فیصلہ دے تو کیا قاتل سڑک پر آجائے اور احتجاج شروع کر دے کہ فیصلہ میرے خلاف کیوں آیا؟
بھائی سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے، اس نے فیصلہ دینا ہے۔ اس نے حق، سچ اور قانون کے مطابق عدل کرنا ہے۔
اسلام ٹائمز: نئے بیانیہ کی بات کی جاتی ہے، جبکہ آپ کی آواز اقبال اور جناح کا پاکستان ہے؟
علامہ جعفری: مجلس وحدت مسلمین نے واضح کہا ہےکہ ہمیں علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح والا پاکستان چاہیئے، سبز ہلالی پرچم والا پاکستان چاہیئے، جہاں فرقہ واریت نہ ہو، جہاں امتیازی سلوک نہ ہو، جہاں مذہبی رواداری ہو، ایسا پاکستان چاہیئے۔ یہ ہمارا بیانیہ تھا اور ہے۔ وہ بیانیہ جو اقبال اور جناح کا بیانیہ ہے، ہم ایسا پاکستان چاہتے ہیں۔ اس وقت اس بیانیہ کو بیان کرنے کی ضرورت ہے، وہ لوگ جو قوم کو کنفیوژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں ناکام بنانا ہوگا۔ یہ نیا بیانیہ کیا چیز ہے؟ ہمارے پاس اقبال اور قائد اعظم کا بیانیہ موجود ہے۔ انشاءاللہ ہم اس حوالے سے اپنا رول ادا کر رہے ہیں اور مزید کریں گے۔
اسلام ٹائمز: ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک مرتبہ پھر ٹارگٹ کلنگ شروع ہوگئی ہے، عمران خان کی حکومت ہے جو آپ کے قریب سمجھے جاتے ہیں، اس کو رکوانے کےلئے کیا اقدامات ہو رہے ہیں؟
علامہ جعفری: جی بالکل، کے پی کے، کے اندر ہمارے لوگ شہید ہوتے رہتے ہیں اور ہو رہے ہیں، وہاں اہل تشیع کی جان و مال غیر محفوظ ہے، عمران خان کو اس میں دلچسپی لینی چاہیے، آپ یہاں سے اندازہ لگائیں کہ وہاں کا وزیر اعلٰی کبھی ڈیرہ اسماعیل خان نہیں گیا، اس کے وزیر کبھی شہیدوں کے گھر نہیں گئے، کوئی مذمتی بیان تک نہیں آتا۔ میرے خیال میں عمران خان کی یہ بڑی کمزوری ہے، یہ پالیسی ان کےلئے بہت بڑا مسئلہ بنائے گی، ان کو اس پر کام کرنا ہوگا۔
ایک بات واضح کروں کہ ہماری کسی سے رشتہ داری نہیں ہے، ہم نہیں چاہتے کہ عمران خان کی پارٹی کو کوئی تکلیف ہو، جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے، یاد رکھیں کہ ہم عمران خان کو عوامی عدالت میں لا کھڑا کریں گے، عجیب نہیں ہےکہ ہم عید پر بھی لاشیں اٹھائیں اور دھرنا دیں اور 14 اگست کو قوم آزادی منا رہی ہے اور ہم لاشیں لئے بیٹھے ہیں۔ عمران خان اس پر جواب دہ ہیں۔ اس سے پہلے وہاں جیل ٹوٹی، اس کی ذمہ داری عائد کرنی چاہیئے تھی، لیکن اس حوالے سے کچھ نہیں کیا گیا، اس جیل میں ایک شیعہ کو مار دیا گیا، اگر نواز شریف سے عوام دور ہوسکتے ہیں تو عمران خان عوام کے چچا کا بیٹا نہیں ہے، جب اس سے صوبہ نہیں کنٹرول ہوسکتا تو مرکز کیسے کنٹرول کرےگا۔ باقی سکیورٹی اداروں کی بھی ذمہ داری ہےکہ وہ وہاں امن و امان کے قیام کےلئے مضبوط کردار ادا کریں، ایک چھوٹا شہر جس کی تین سڑکیں ہیں، اس کو وہ کنٹرول نہیں کرسکتے۔