علامہ اقبال علیہ الرحمہ اور امام خمینی رضوان ﷲ علیہ درس سے نہیں بنے بلکہ درد سے بنے ہیں؛ دونوں کے اندر درد تھا۔
علامہ اقبال (رہ) کی شخصیت بیسویں صدی کی کثیر الابعاد شخصیت واقع ہوئی ہےکہ جس نے جانگسل تعقل اور جانگداز فکر و نظریاتی کشمکش کے اس عہد میں نہ صرف ایک حیات بخش اور فکرانگیز فضا میں سانس لینے کےلئے حالات پیدا کئے بلکہ پورے مشرق میں خود اعتمادی اور عزت نفس جہاں بینی کا ولولہ پیدا کیا۔
علامہ اقبال ؒ باطل طاقتوں کے خلاف کی جانے والی اپنی جدوجہد میں بھی لوگوں کو وحدت و اتحاد کی دعوت دیا کرتے تھے اپنے اہم اشعار میں انھوں نے اُمت اسلامیہ کی وحدت کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔
وہ ارض قدس ہو یا وادی کشمیر
ہر چمن ہر غنچہ و گل ہمارا ہے
زمانہ جان لے کہ فرزند لا اِلہ ہیں ہم
جہاں اذان کی صدا ہو وطن ہمارا ہے
علامہ اقبالؒ نے یہ بتایا تھا کہ الٰہی انقلاب کی کامیابی کےلئے اُمت اسلامیہ کے درمیان وحدت و اتحاد کا عملی وجود لازمی ہے۔ آپ تاکید کرتے تھےکہ اسلام ہی مسلمانوں کی تنہا پناہ گاہ ہے اور اُس کے پُرافتخار پرچم کے سایہ میں ہر گروہ کے لوگوں کو ان کا جائز حق حاصل ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر اُمت واحدہ کا تذکرہ کیا ہے اور اس موضوع پر خاصا زور دیا ہےکہ ایک نیک اور پسندیدہ معاشرہ کی حقیقی ترقی میں اُمت واحدہ کا بنیادی کردار ہُوا کرتا ہے اور حقیقت تو یہ ہےکہ لفظ اُمت کا اطلاق اس گروہ یا جماعت پر ہوتا ہے جو احکام خداوندی کے آگے سر تسلیم و اطاعت خم کئے ہوئے ایک مقصد اور واحد ارمان کی طرف گامزن ہو، یہ ایک فطری بات ہےکہ ایک محور کے ارد گرد جمع ہونے والی اُمت واحدہ ہوگی متفرقہ نہیں، یہی وجہ ہےکہ پیغمبران خدا اور رسولان الٰہی نے ہمیشہ ایسے ہی معاشرہ کی تشکیل کی کوشش کی ہے اور ایک اُمت واحدہ کی ایجاد میں اپنے الٰہی ارمانات کی جستجو کرتے رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہےکہ انسانی وجود کی گہرائیوں میں اس مقصد عظیم کی جڑیں ہیں اور آفرینش کا نظام وحدت و یگانی پہ مبنی ہے۔
منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، ﷲ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
علامہ اقبال علیہ الرحمہ اور امام خمینی رضوان ﷲ علیہ درس سے نہیں بنے بلکہ درد سے بنے ہیں؛ دونوں کے اندر درد تھا اور وہ درد جو انھیں آرام کرنے نہیں دیتا تھا جس درد نے یہ سارے نالے اقبالؒ سے اگلوائے جس درد نے خمینی ؒ سے یہ فریادیں اگلوائیں؛ یہ درد دونوں کا درد تھا دونوں کی یہ آرزو تھی کہ اُمت کا دوبارہ دینی تشخیص مل جائے۔ علامہ اقبالؒ نے وحدت اُمت پر زور دیا ہے؛ ان کے اشعار میں جو وحدت کی خوشبو آتی ہے شاید وہ کسی اور کے اشعار میں نہیں ملتی۔
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقل خدا داد
علامہ اقبال ؒ نے اسلامی معاشرہ میں وحدت پہ کافی زور دیا ہے کیونکہ جب تک کوئی قوم یا ملت متحد ہوکر رہتی ہے تب تک وہ عزت مند، جرات مند، محفوظ اور مستحکم ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
علامہ اقبالؒ نے اپنے انداز فکر سے قوم و ملت کو بیدار کیا اور اپنی شاعری میں وحدت و اتحاد کا درس دیا، اسلامی اتحاد کی ضرورت اسلئے ہےکہ اتحاد خدا کی ایسی مضبوط رسی ہے جس سے گمراہی اور تفرقہ کی ذلت سے نجات ملتی ہے۔
اسلامی اتحاد کی ضرورت اسلئے ہےکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کی شان و شوکت اور کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔
اسلامی اتحاد کی ضرورت اسلئے ہےکہ تفرقہ ڈالنے والوں اور اُمت مسلمہ کو ٹولیوں سے بانٹنے والوں سے پیغمبر اسلام اور اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
وحدت اُمت کی ضرورت اسلئے ہےکہ قرآن کی نظر میں اختلاف اور تفرقہ ایجاد کرنا مشرکوں اور غیر مسلمانوں کا منصوبہ ہے۔
وحدت اُمت کی ضرورت اسلئے ہے کیونکہ تفرقہ و اختلاف خدا کے عذاب کا سبب بنتا ہے اور استعماری طاقتیں مسلمانوں کی تقدیر اور سرنوشت پر حاکم بنیں گے۔ آج بھی بہت سے اسلامی ممالک اور ملت اسلامیہ کے ہزاروں افراد استعماری اور استکباری طاقتوں کے ہاتھوں مظلوم اور بے قصور ہلاک ہو رہے ہیں؛ وحدت اُمت کی ضرورت ہے کیونکہ مسلمانوں کی عزت، سربلندی، حاکمیت، کرامت، صرف کلمہ اتحاد میں ہی پوشیدہ ہے۔
ایک ہو جائیں تو بن سکتے خورشید مبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا فائدہ
سید ماجد حُسین رضوی