روہنگیا میں مسلم نسل کشی پر سعودی حکام کی خاموشی سے محسوس ہوتا ہےکہ سعودی حکومت کو مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی تشویش لاحق نہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی: میانمار میں پیش آنے والے سفاکانہ واقعات پر عملدرآمد، میانمار حکومت کی نگرانی میں ہو رہی ہےکہ جس کی قیادت ایک سنگدل اور امن نوبل پرائز جیتی ہوئی بے رحم عورت کے ہاتھوں میں ہے اور اس طرح کے نوبل امن پرائز پر لعنت و نفرت باد۔
اسلامی حکومتوں کو چاہئےکہ اس سفاک عورت اور حکومت پر سیاسی اور تجارتی دباؤ میں اضافہ اور بین الاقوامی اداروں میں فریاد کے ساتھ اپنا موقف بیان کریں۔
برما میں روہنگیا مسلمانوں پر جاری انسانیت سوز مظالم کے خلاف دنیا بھر میں احتجاجی جلوس جاری ہے؛ احتجاج میں مظاہرین کی بڑی تعداد شریک ہوتے ہیں جنہوں نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے، برما میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی تصاویر اور مذمتی نعروں سمیت عالمی اداروں اور اقوام متحدہ کی بےحسی کے خلاف نعرے آویزاں تھے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ عالمی برادری برما میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا نوٹس لے، دنیا نے انسانیت کے اہم مسئلہ فلسطین کو فراموش کر دیا ہے تو نتیجہ میں کشمیر و افغانستان سمیت عراق اور برما جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں، برما میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اس موقع پر مظاہرین نے برما کے مسلمانوں کے حق میں اور میانمار حکومت کے خلاف زبردست نعرے بازی کی۔
روہنگیائی مسلمانوں پر جس طرح برما کی حکومت جبر و تشدد ڈھا رہی ہے، اس سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسا لگتا ہےکہ جیسے انسانیت نام کی کوئی چیز برما کے حکمرانوں کو چھو کر بھی نہیں گزری ہے۔ مرد، عورت، بچوں اور بوڑھوں کو جس طرح ظلم و جبر کی چکی میں پسا جا رہا ہے اور جس طرح ان کے سر بے دردی سے کاٹے جا رہے ہیں، اس پر ذی حس لوگ خون کے آنسو رو رہے ہیں، لیکن وہ لوگ جو واقعی روہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو محسوس کر رہے ہیں، وہ بے بس ہیں، لیکن افسوس اس بات کا ہےکہ مسلم ممالک کو جس طرح میانمار کی حکومت کے خلاف متحد ہوکر کارروائی کرنی چاہئے تھی، وہ نہیں کی جا رہی ہے، صرف ترکی اور ایران نے کھل کر برما کی فوجی حکومت کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر احتجاج کیا، جس کی بناء پر حکومت بنگلہ دیش نے برمی پناہ گزینوں کےلئے اپنی سرحدیں کھول دیں اور اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ذیلی ادارے نے اس بات کی تصدیق کی کہ اتوار تک تقریباً تین لاکھ روہنگیائی مسلمان بنگلہ دیش میں داخل ہوچکے ہیں۔
میانمار کی فوجی حکومت کیطرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر سعودی عرب نے بھی کوئی ایسا ردعمل ظاہر نہیں کیا، جس سے محسوس ہوتا ہےکہ سعودی حکومت کو بھی مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی تشویش لاحق نہیں ہوئی ہے۔ سعودی عرب کو چونکہ مسلم دنیا میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کو مدنظر رکھ کر اگر یہ ملک ایران یا ترکی کی طرح ردعمل ظاہر کرتا تو اس سے کافی فرق پڑھ سکتا تھا۔
حال ہی میں یہ انکشاف بھی ہوا ہےکہ مسلمانوں کے ازلی دشمن اسرائیل کا روہنگیائی مسلمانوں کے قتل عام میں برابر کا حصہ ہے اور دراصل اسرائیل ہی برما کی حکومت کو مسلمانوں کی نسل کشی کےلئے ہتھیار اور دوسرا ضروری ساز و سامان فراہم کر رہا ہے۔ انہی دنوں اسرائیل کی ایک عدالت میں وہاں کے ایک باشندے نے رٹ پیٹیشن دائر کی ہے، جس میں حکومت اسرائیل کی طرف سے روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کےلئے حکومت برما کو مدد و اعانت فراہم کرنے پر روک لگانے کا مطالبہ کیا گیا۔
جب پانی سر سے اونچا ہونے لگا تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے حکومت برما اور خاص طور پر آنگ سان سوچی جو خود کو انسانی حقوق کی علمبردار ظاہر کرتے ہوئے تھکتی نہیں، سے اپیل کی کہ برمی فوج اور بودھوں کی طرف سے مسلمانوں کے قتل عام پر روک لگانے کےلئے فوری اقدامات کریں۔
انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کو ان کے حقوق دلائے جائیں تاکہ وہ اپنے ملک میں امن و سکون سے رہ سکیں۔
روہنگیائی مسلمانوں کو کہیں پر بھی چین میسر نہیں اور نہ ہی انہیں اپنے گھر اور نہ ہی پردیس میں آرام سے رہنے دیا جا رہا ہے۔ میانمار حکومت کا ستایا ہوا یہ قبیلہ گھر بار چھوڑ کر ہجرت جاری رکھے ہوئے ہے اور حالیہ ظلم و زیادتی کے نتیجہ میں اب تک لگ بھگ تین لاکھ افراد نقل مکانی کرکے بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں، جبکہ بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک اور زخمی بھی ہوئے ہیں۔
روہنگیائی مسلمانوں کا مسئلہ ایک انسانی المیہ ہے اور یہ آبادی اس قدر یک طرفہ مظالم کا شکار ہے، جس کی موجودہ دور میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ انسانیت کا یہی تقاضہ ہےکہ حالات کے مارے ان کنبوں کو عارضی طور پر رہنے کےلئے جگہ دی جائے اور ان کے ساتھ انسانیت سے پیش آیا جائے۔ انہیں جرائم پیشہ اور شدت پسند عناصر کا نام دینا اس انسانی المیہ کا حل نہیں ہے۔
غرض یہ کہ روہنگیائی کنبوں کو شک کی نظروں سے دیکھنے کے بجائے ان کے ساتھ انسانیت کے طور پر پیش آنا چاہئے اور عالمی برادری سمیت اسلامی ممالک کو بھی یہ کوششیں کرنی چاہئیں کہ ان کے آبائی علاقہ رخائن میں امن قائم ہو اور وہ بھی عزت سے اپنے گھروں کو واپس جاسکیں۔