بہشتی: امام حسین (ع) کی ذات اقدس کی شناخت کے حوالے سے ہمارے پاس جتنی بھی معلومات ہے وہ سب ایک طرف اور دعائے عرفہ امام حسین (ع) ایک طرف ہے۔
محمد رضا بہشتی نے امام حسین (ع) کی دعائے عرفہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی: امام حسین (ع) کے مراسم عزاداری میں ہماری کوشش احساسات اور جذبات کو بیدار و آشکار کرنے کے علاوہ یہ ہونے چاہیئے کہ ان نکات کی طرف بھی عوام کے اذہان کو مبذول کریں جن سے ان کی زندگی میں نمایاں تبدیلی نظر آئے۔
جماران کے مطابق، خانہ اندیشمندان علوم انسانی کی جانب سے "عاشورا اور ہمارا دور" کی نشست "عرفہ میں دعا، عاشور میں استجابت" کے موضوع پر، چھٹی محرم کی شب خانہ اندیشمندان کے ہال میں منعقد ہوئی، جس سے محمد رضا بہشتی نے دعائے عرفہ اور روز عاشور میں دعا کی اجابت کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی، آپ نے کہا:
عاشورا کا واقعہ، تاریخ کے نادرترین حادثات میں سے ہے کیونکہ اس میں بہت سی نادر اور کمیاب خصوصیات ملتے ہیں، اس واقعہ میں جو کچھ رونما ہوا، معرفت الہی کی توانائیاں کی گرانقدر تجلی، عظیم انسانوں میں وہ بھی سخت ترین اور سنگین ترین امتحانوں کے میدان میں آشکار ہوئیں۔ ایسی سرزمین میں جھاں اشخاص کی شناخت و معرفت کو تولا جاتا ہے۔
انھوں نے آگے کہا: جب بھی کوئی شخص ایمان کے میدان میں قدم رکھتا ہے، بے شک وہ مورد امتحان واقع ہوتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے: «وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِیبَة قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ» اس آیت میں تاکید کی گئی کہ ہم ضرور، تم لوگ کو آزمائیں گے۔
جناب بہشتی نے اسی سلسلہ میں کہا: عاشورا کے واقعہ میں امام حسین (ع) اور ان کے انصار کو حقیقت میں سنگین ترین امتحانوں کا سامنا تھا۔ حسین بن علی (ع) عالم اسلام کے درخشاں ترین اور معروف ترین چہروں میں سے تھے، اسی لئے سفر حج پر جانے والے لوگوں کو اس بات پر بھی خوشی تھی کہ وہاں نواسے رسول کے چہرے کی زیارت اور آواز سننے کو ملےگی۔
آیت اللہ شہید بہشتی کے فرزند نے مزید کہا: لوگ شہادتین پڑھ کر اسلام تو لاتے ہیں، لیکن ایمان میں متزلزل ہیں؛ البتہ انبیاء (ع) بھی ایمان کے حوالے سے مختلف درجات پر فائز تھے۔ درحقیقت ایمان، شناخت و معرفت سے سرچشمہ لیتا ہے اور امام حسین (ع) کی ذات اقدس کی شناخت کے حوالے سے ہمارے پاس جتنی بھی معلومات ہے وہ سب ایک طرف اور دعائے عرفہ امام حسین (ع) ایک طرف ہے۔
انھوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اگر ہم امام حسین (ع) اور ان کے جانثار اصحاب کی جگہ ہوتے معلوم نہیں تھا کہ کیسے عمل اور کیا موقف اپناتے؛ مزید برآں، امام کی شہادت کی مصیبت سے بالاتر جو بڑی اور ہولناک مصیبت ہے وہ آپ کی ھتک حرمت ہے، نواسے رسول کی حرمت شکنی ہے۔ صرف اس بات کا تصور کہ آپ کے مقام و مرتبے پر فائز شخص کا، کس قسم کے لوگوں کے سامنا ہوتا ہے اور کس کس طرح آپ کی ہتکِ حرمت کی جاتی ہے، واقعاً دردناک اور غم انگیز ہے۔ مثال کے طور پر عاشورا کے روز جب امام علیہ السلام، دشمن کے سامنے خطاب کرنا چاہتے ہیں، امام کے کلام کے اثر و تأثیر کے خوف سے دشمن شور و شرابہ کرنے کو کہتا ہےکہ کہیں امام کی آواز کسی تک نہ پہنچے۔ جبکہ امام کا مقصد صرف امت کی اصلاح تھی اور اپنے لئے، خاندان، دوست و انصار کےلئے کسی قسم کے امتیاز کی تلاش میں نہیں تھے اور نہ حب ریاست نے آپ کو میدان کربلا میں لاکھڑا کیا تھا؛ ان تمام کے با وجود ہتک حرمت ہوتی ہے اور آپ کی اولاد اور انصار و اصحاب سب کے سب کو دردناک طریقے سے قتل کئے جاتے ہیں۔